کائنات کا بنیادی مسالہ
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12830
سوال: ہر پیدا ہونے والی چیز میں کوئی نہ کوئی رنگ ضرور ہوتا ہے۔ کیوں؟
جواب: پھول اگر رنگین ہے تو درخت کا پھول الگ رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس کی رنگ سازی کا عالم یہ ہے کہ کوئی پھول اس قدر سرخ ہوتا ہے کہ نَوع انسانی کا اس قدر سرخ رنگ بنانا آسان نہیں۔ پھول کے رنگوں میں کہیں سفید کہیں سبز اور کہیں اُودا (جامنی)۔ مطلب یہ ہے کہ بے شمار رنگ زمین سے پھوٹتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی شان بھی کیسی عجیب شان ہے کہ زمین ایک ہے، ہَوا بھی ایک ہے، سورج کی روشنی بھی ایک ہے، پانی بھی ایک ہے، پیدائش کا طریقہ بھی ایک ہے لیکن ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے!
اور دوسری بات جو بہت زیادہ توجّہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہر پید اہونے والی شئے میں کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ضرور رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو بے رنگ ہو۔
یہ بے رنگ اور رنگ دراصل خالق اور تخلیق کے درمیان ایک پردہ ہے۔ خالق سے مخلوق کو جو چیز الگ اور ممتاز کرتی ہے وہ رنگ ہے۔
انسان کے اندر جب تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا علم بیدار کر دیتے ہیں تو اس کے اوپر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ تخلیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی خیال ہے بے رنگ خیال جب رنگین ہو جاتا ہے تو تخلیق بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے جو کچھ بھی ہیں اس کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ظاہر ہو گئے ہیں ان کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ایسی ماوراء ہستی ہیں کہ جو تمام مخلوقات سے الگ اور ممتاز ہیں۔
حضور قلندر بابا اوّلیاءؒ نے ’’لوح قلم‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو ورائے بے رنگ فرمایا ہے۔ یعنی:
- رنگ
- بے رنگ، اور
- ورائے بے رنگ۔
اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو بنانے کا ارادہ فرمایا تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا اس کا ارادہ کیا اور فرمایا کُن اور وہ چیز وجود میں آ گئی یعنی ورائے بے رنگ سے نزول کر کے اللہ تعالیٰ کے خیال نے ایک رنگ اختیار کیا۔ جس کو سمجھنے کے لئے تصوّف نے بے رنگی کا نام دیا۔ یعنی ایسا رنگ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور جس کی الفاظ میں تشریح نہیں کی جا سکتی۔
پھر اس بے رنگی میں حرکت پیدا ہوئی تو رنگین وجود تخلیق میں آ گیا اور یہی وجود مختلف صورتوں میں اور مختلف رنگوں میں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ مجسّم اور متشکّل ہو گیا۔ اس بات سے یہ پتہ چلا کہ کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر یا بنیادی مسالہ رنگ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 203 تا 204
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔