پھول مہک

مکمل کتاب : قوس و قزح

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=8591

اللہ کی کتاب جو اللہ کے محبوبﷺ پر نازل ہوئی۔ جس میں لاریب‘شک نہیں۔ جو کتاب روشن دلیلوں کے ساتھ ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے۔ جس کتاب کا ہر ہر لفظ نور ہے، ایسا نور جو انسان اور خالق کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے۔ ایسا نور جو مخلوق کے لئے سماعت اور بصارت بن جاتا ہے۔ یہی نور ہے جو زمین کو بچھائے ہوئے ہے اور یہی نور ہے جس نے آسمانوں کو رفعت بخشی ہے۔ نور علی نور ہدایت عطا کرتا ہے جسے اللہ چاہے۔ نور کے جامہ میں ملبوس قرآن کریم کی آیت:۔
’’عقل والے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔‘‘
پر میں نے تفکر کیا۔ یکایک شعور سے اس پار لاشعور میں جھماکہ ہوا۔ غنود کے دروازے سے نکل کر لاشعوری حواس میں پہنچا۔ تو
لاشعوری طلسماتی دنیا میں زماں و مکاں کی قید سے آزاد انسانوں کو چلتے پھرتے دیکھا۔ مرغزاروں میں طیور دیکھے۔ مہوش ایسی صورتیں نظر آئیں جن کی سراپا بلور کے قندیل تھے۔ شیشے کے جاروں میں بند قطار اندر قطار سرو اور درختوں کو ترانے گاتے سنا
چٹکتی کلیوں اور مہکتے پھولوں کو غزل سرا دیکھا۔ ذہن میں ایک دریچہ کھلا۔ لاشعوری دنیا سے پرے بھی ایک اور عالم بالکل اسی طرح موجود ہے جیسے میری زمین اور میری زمین کے باسی۔
میں اوپر سے نیچے پلٹ آیا کہ جب سب کچھ زمین ہی ہے تو میں زمین کے اوپر کیوں تفکر نہ کرو۔ زمین کے اندر کا کھوج کیوں نہ لگاؤں۔
میں نے اپنی ماتا دھرتی سے پوچھا:
اے ماں! تو کیا ہے؟
زمین بولی! میں کیا نہیں ہوں۔
میں چٹکتی کلی کا حسن ہوں‘ شاخوں اور پتوں کا نکھار ہوں۔ پھول کی مہک ہوں بلبل کی آواز ہو ں چڑیوں کی چہکار ہوں کوئل کی کوک ہوں کبوتر کی غٹرغوں ہوں پھلوں میں مٹھاس ہوں کلیوں پھولوں پھلوں کا رنگ ہوں اور درختوں کی آن بان ہوں۔
زمین بولی:
میں اگر پھول کے بیج کو اپنے شکم میں نشوونما نہ دوں تو پھول میں خوشبو کہاں سے آئے گی۔
میں پھلوں کو اپنے رحم میں پروان نہ چڑھاؤں اور ان کے اندر مٹھاس منتقل نہ کروں تو پھل میٹھے کیسے ہونگے؟
میں تیری ماں زمین، تیرے لئے پانی کے چشمے نہ ابال دوں تو پہاڑوں سے آبشار نہیں گریں گے۔ یہ جو تو موٹر کار میں ہوائی جہاز میں دیوہیکل مشینوں میں تیل اور پیٹرول پھونکتا ہے یہ میری شریانوں سے نکلا ہوامیرا خون ہے۔ میں تیری ماں زمین۔ اگر دل سخت کر لوں اور اپنا جسم اکڑا لوں تو میرے اوپر کوئی گھر نہیں بن سکتا۔ میں تجھے زندگی دیتی ہوں تو جب میرے اوپر تکبر کی تصویر بن کر ٹھوکروں میں روندتا ہے میں تب بھی تیرے پیر نہیں پکڑتی اور جب تو میرے جسم میں اپنے نوکیلے ہتھیاروں سے گھاؤ ڈال کر میرے وجود میں بیج ڈالتا ہے تو میں تیری ماں ان کو ضائع نہیں کرتی کہ یہ میری اولاد کو زندگی دیتے ہیں۔
مگر اے میری اولاد!
کیا تو نے سوچا ہے کہ تو نے مجھے کیا دیا؟ تو نے میرے احسانات اور خدمت کا کیا بدلہ چکایا ہے؟
زمین پر بسنے والی میری اولادوں میں سے سب سے افضل اور میری چہیتی اولاد! میں نے تیرے باپ آدم کو جنم دیا ، تیری ماں حوا کو خوبصورت وجود بخشا۔ اس لئے کہ ہر ماں کی طرح میری بھی آرزوئیں اور تمنائیں ہیں۔ میں بھی مامتا کی ماری چاہتی ہوں کہ میری اولاد خوش رہے، پرسکون رہے، آپس میں پیار و محبت، خلوص و ایثار ہو، ایک بھائی دوسرے بھائی کو تباہ نہ کرے، ایک بہن دوسری بہن کو برباد نہ کرے۔
آدم و حوا کی نسل میری اولاد آ! میرے قریب آ! کہ میں تجھے ایک راز بتا دوں مجھے اللہ نے تیرے لئے دسترخوان بنا دیا ہے۔ جتنا میرا طول و عرض ہے۔ اتنا ہی بڑا کشادہ اللہ کا دسترخوان ہے۔ اس دسترخوان پر اللہ نے وہ ساری نعمتیں رکھ دی ہیں جن کی تجھے ضرورت ہے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک نعمتیں ہی نعمتیں ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ کوئی قیمت نہیں۔ زمین پر رہنے والا ہر فرد جس طرح چاہے اس سے مستفید ہو سکتا ہے، ہو تا ہے، ہوتا رہے گا۔ کیا تو نہیں دیکھتا اور کیا تو نہیں سمجھتا کہ میں تیری مالک بن گئی ہوں۔ میری ہر چیز تیری ہے۔ جس طرح ہر ماں کی ہر چیز اولاد کی ہوتی ہے۔
سونا چاندی میرے ہی جسم کے ذرات ہیں۔ پرت در پرت طبقات میرے اعصاب ہیں۔ پانی میرا خون ہے۔ Gases میری وریدوں میں دوڑنے والی حیات ہیں۔ رنگ میری خوبصورتی، غلافوں میں بند پھل میری حیا۔ مخملی گھاس میرا لباس۔ پھول لباس پر نقش و نگار، چوپائے میرے وجود کا احساس۔ پرندے میرا لہجہ ، سمندر میرا مدوجزر، پہاڑ میری طاقت۔ دریا میرا سکون۔ بارش میرے آنسو۔ شفق میرے لبوں کی لالی۔ سورج میری روشنی چاند میرے ماتھے کا ٹیکہ اور ستارے میرے سر کا جھومر۔ یہ سب کس کے لئے ہے۔
میرے بچو! یہ سب تمہارے لئے ہے۔
میں تمہاری ماں زمین !
اپنی ماں! اپنے خالق اللہ کی منشاء سے۔ اللہ کی چاہت سے۔ اللہ کے پیار سے ہر آن ہر لمحہ تمہاری خدمت میں لگی رہتی ہوں۔ تم کیوں آپس میں لڑ کر، فساد برپا کر کے، قتل و غارت گری سے اپنی ماں کو دکھی کرتے ہو۔ میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا، ہمیشہ تمہیں زندگی دی ہے پھر تم کیوں میری گود اجاڑ دینا چاہتے ہو۔
سنو بگوش پوش سنو!
ایک محلے میں پچاس گھر ہوتے ہیں۔ ہر گھر میں گھر والے اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔ کوئی کسی کے گھر کو اپنا گھر بنانے کے لئے جھگڑا نہیں کرتا۔ ایک شہر میں ہزاروں گھر ہوتے ہیں ۔ ہر فرد قناعت کے ساتھ اپنے آنگن میں اپنے پھول جیسے معصوم بچوں کے ساتھ خوش رہتا ہے۔
کیا زمین پر بسنے والی قومیں اپنے اپنے ملکوں میں محلوں اور شہروں میں رہنے والے لوگوں کی طرح آخر کیوں نہیں رہ سکتیں۔ تم اقتدار کے نشے میں بدمست کیوں ہو گئے ہو میں کروڑوں سال سے زائد ہوں۔ میں نے نہیں دیکھا کہ اقتدار کی حوس میں فتوحات کرنے والا کوئی غاصب، انا کا پجاری ظالم اور جاہل اپنے ساتھ ایک تنکا بھی لے گیا ہے۔
میرے بچو!
تم میری کوکھ سے محبت کی تصویر بن کر جنم لیتے ہو اور محبت کو نفرتوں میں تبدیل کر کے خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہو۔
میں زمین تمہاری ماں ہوں۔
میرے اندر نفرت حقارت تعصب نسل پرستی اور اقتدار کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ کیا تم اتنے ہی احسان فراموش ہو کہ تمہاری ماں اپنے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر تمہیں زندگی دے رہی ہے اور تم آپس میں اپنی ماں کے لئے بہن بھائیوں میں خوشیاں نہیں بانٹ سکتے ہو۔
یاد رکھو!
تمہیں اپنی پوری گندگی سرانڈ اور جاہ و جلال کے جھوٹے دعوؤں کے ساتھ دوبارہ میرے پاس آنا ہے۔ میں ماں ہونے کے ناطے تمہارا تعفن تو ڈھانپ لوں گی مگر تمہیں اپنے لئے بچھے ہوئے دوسرے دسترخوان پر بھی ناخوش ہو کر جینا ہو گا جہاں اقتدار ہے اور نہ ہی کبر و نخوت کی گنجائش ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 89 تا 94

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)