وہاں کی زبان کو سمجھنا
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13297
سوال: اس دنیا میں مختلف جگہ الگ الگ زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ ہر آدمی دوسرے آدمی تک اپنا خیال پہنچانے کے لئے کسی زبان یا لینگوئج کا محتاج نظر آتا ہے۔ مقامات کی تبدیلی کے علاوہ زمانے کے بدلنے سے بھی زبان بدل جاتی ہے۔ مثلاً دو سو سال پہلے کی اردو آج سے قطعی مختلف تھی۔ اسی طرح شیکسپیئر کے دَور کی انگریزی سمجھنے کے لئے ضخیم ڈکشنری سے مدد لینی پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم سب کو مر کر دوسری دنیا میں جانا ہے۔ اس دنیا میں بھی مختلف زمانوں کے لوگ موجود ہیں مصری، اشوری، یونانی اور نہ جانے کون کون سی تہذیبوں اور زبانوں کے لوگ۔ فرض کیجئے ایک آدمی کا انتقال ہو جاتا ہے وہ مرنے کے بعد جس دنیا میں جائے گا وہاں کی زبان کیسے سمجھے گا؟ دوسری بات یہ کہ جنّت کے باسیوں کی زبان کیا ہو گی؟ فرشتوں اور جنّات کی زبان کیا ہے اور ایک روحانی آدمی یہ زبان کیسے سمجھتا ہے؟
جواب: حضرت سلیمان علیہ السّلام کے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات بھی درباری خدمات کے لئے حاضر رہتے تھے اور اپنے مراتب اور سپرد کردہ خدمات پر بے چون و چرا عمل کرتے تھے۔
دربارِ سلیمان علیہ السّلام پورے جاہ و حشم کے ساتھ منعقد تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جائزہ لیا تو ہُد ہُد کو غیر حاضر پایا۔ ارشاد فرمایا:
’’ہُد ہُد کو موجود نہیں پاتا۔ کیا وہ واقعی غیر حاضر ہے؟ اگر اس کی غیر حاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا۔ یا ذبح کر ڈالوں گا۔ یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتائے۔‘‘ (سورۃ النّمل – 21-20)
ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہُد ہُد حاضر ہو گیا اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کی باز پرس پر اس نے کہا:
’’میں ایک ایسی یقینی خبر لایا ہوں جس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ یمن کے علاقے میں سباؔ کی ملکہ رہتی ہے اور خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تختِ سلطنت اپنی خوبیوں کے اعتبار سے عظیم الشان ہے۔ ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہے۔ شیطان نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور وہ خدائے لاشریک کی پرستش نہیں کرتے۔‘‘ (سورۃ النّمل – 22، 23، 24)
حضرت سلیمان علیہ السّلام نے کہا۔
’’تیرے جھوٹ اور سچ کا اِمتحان ابھی ہو جائے گا۔ تو اگر سچا ہے تو میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النّمل – 28 – 27)
ہُد ہُد یہ خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لئے جا رہی تھی۔ ہُد ہُد نے راستہ ہی میں خط ملکہ کے سامنے ڈال دیا۔
قرآن مجید میں ہی حضرت سلیمان علیہ السّلام کا چیونٹی سے ہم کلام ہونا بھی موجود ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ چیونٹی اور ہُد ہُد کی زبان کیا ہو گی؟ کیا یہ زبانیں الگ الگ ہوں گی؟
انسانوں کے درمیان ابتداءِ آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی متعیّن کر لئے جاتے ہیں، سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس ہی تبادلۂِ خیال کی نقل ہے جو اَنا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف سی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقے کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی انا کی لہریں خیالات کی منتقلی کا کام کرتی ہیں۔ درخت میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹّی کے ذروں میں مِن و عَن اسی طرح تبادلۂِ خیال ہوتا ہے۔
سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر یا روشنی کے اوپر ہے۔ جب ہر شئے شعاعوں یا لہروں کا مجموعہ ہے تو ہم شعاعوں یا لہروں کو دیکھے یا سمجھے بغیر یہ کیسے جان لیتے ہیں کہ یہ درخت ہے، پتھر ہے یا یہ چیز پانی ہے؟ ہم جب کوئی پھول دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ پر پھول کے متعلق خوبصورتی، خوشبو، فرحت و انبساط کا تاثر قائم ہوتا ہے حالانکہ ہم نے ابھی پھول کو نہ چھوا ہے، نہ سونگھا ہے۔ اسی طرح ایک ایسے آدمی کا چہرہ ہمارے سامنے آتا ہے جو طبعاً تخریب پسند ہے یا ہم سے مخاصمت رکھتے ہیں، تو اس آدمی کے خیالات سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور ہماری طبیعت کے اوپر اس کا ردِّ عمل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی آدمی ہم سے دلی تعلق رکھتا ہے تو اسے دیکھ کر ہماری طبیعت میں اس کے لئے محبت اور انسان شناسی کے جذبات ابھرتے ہیں حالانکہ ان دونوں آدمیوں میں سے کسی نے بھی ہمارے ساتھ نہ کوئی بات کی ہے اور نہ ہمیں کوئی نقصان یا نفع پہنچایا ہے۔
دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن جب پانی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر آدمی اسے پانی سمجھتا ہے اسی طرح دوسری زبانیں بولنے والے جل، آب، ماء، واٹر، Water وغیرہ کہتے ہیں…. لیکن پانی پانی ہے۔ جب کوئی اردو دان کسی انگریز کے سامنے لفظ درخت کہتا ہے تو اس کے ذہن میں درخت ہی آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریز اس کو Tree کہتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ پر جب ہم آگ کا تذکرہ کریں گے تو اس خطے پر بولی جانے والی مادری زبان کچھ بھی ہو لوگ اسے آگ ہی سمجھیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کوئی چیز اپنی ماہیئت خواص اور اپنے افعّال سے پہچانی جاتی ہے۔ نام کچھ بھی رکھا جائے ہر چیز کا قیام لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ روحانیت کا اصل اصول بھی یہی ہے جس طرح پانی لہروں اور روشنیوں کا مجموعہ ہے اسی طرح خیالات بھی لہروں اور روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ اسی طرح خیالات بھی لہروں کے اوپر رواں دواں ہیں۔ ہم سب کسی چیز کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں تو ہمارے خیالات کے اندر کام کرنے والی لہریں اس چیز میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ ایسابھی ہوتا ہے کہ ہم جب کسی آدمی کی طرف متوجّہ ہو کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم پیاسے ہیں تو دوسرا آدمی اس بات کو سمجھ جاتا ہے حالانکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں پانی پلاؤ۔
خیالات کو سمجھنے اور خیالات میں معانی پہنانے کے لئے الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کائناتی لاشعور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ الفاظ کا سہارا لینا ضروری نہیں ہے۔ درختوں، چوپایوں، پرندوں، درندوں اور حشرات الارض کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ یہ سب باتیں کرتے ہیں اور سب اپنے خیالات کو آپس میں ردّ و بدل کرتے ہیں لیکن الفاظ کا سہارا نہیں لیتے۔ موجودہ زمانے نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب یہ بات پوری طرح ثابت ہو چکی ہے کہ درخت بھی آپس میں باتیں کرتے ہیں، درخت موسیقی سے بھی متاثر ہوتے ہیں، اچھے لوگوں کے سائے سے درخت خوش ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی قربت سے جن کے دماغ پیچیدہ اور تخریب پسند ہیں درخت ناخوش ہوتے ہیں۔ یہ بات میں اپنے مشاہدے کی بناء پر لکھ رہا ہوں۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترک رکھتی ہیں۔ مخلوق میں انسان، حیوانات، نباتات، جمادات، جنّات، فرشتے، لاشمار کہکشانی نظام اور ان نظام ہائے میں بسنے والے انسان، جنّات اور فرشتے بھی شامل ہیں۔ کائنات کا یہ نقطۂِ مشترک ہمیں دوسری مخلوقات کی موجودگی کا علم دیتا ہے۔ انسان کا لاشعور کائنات کے دَور دراز گوشوں سے مسلسل ایک ربط رکھتا ہے۔ زبان دراصل خیالات ہیں اور خیالات ہی اپنے معنی اور مفہوم کے ساتھ نَوعِ انسانی اور دوسری تمام نَوعوں میں ردّ و بدل ہوتے رہتے ہیں۔ الفاظ کا سہارا دراصل شعوری کمزوری کی علامت ہے اس لئے کہ شعور الفاظ کا سہارا لئے بغیر کسی چیز کو سمجھ نہیں پاتا۔
جب کوئی بندہ روحانیت کے اصول و ضوابط کے تحت خیالات کی منتقلی کے علم سے وُقوف کر لیتا ہے تو اس کے لئے دونوں باتیں برابر ہو جاتی ہیں چاہے کوئی خیال الفاظ کاسہارا لے کر منتقل کیا جائے یا کسی خیال کو لہروں کے ذریعے منتقل کر دیا جائے ہر آدمی کے اندر ایسا کمپیوٹر نصب ہے جو خیالات کو معنی اور مفہوم پہنا کر الگ الگ کر دیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 222 تا 226
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔