نظر کا قانون
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12814
سوال: روحانی علوم پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسرے علوم کی طرح روحانی یا ماورائی علوم پر بھی غیر مسلم دانشوروں کا تسلّط ہو گیا ہے۔ جب کہ مذہبی نقطہ نظر سے اور دینِ فطرت کے پیشِ نظر روحانیت مسلمانوں کا ورثہ تھا۔ ماورائی علوم میں یہ بات بطورِ خاص بتائی جاتی ہے کہ اگر نظر کو مسلسل کسی ایک نقطے پر قائم کر دیا جائے تو اس عمل سے روحانی صلاحیتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: ہم جب اپنے ارد گرد دنیا اور دنیا سے نکل کر کائنات پر غور کرتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ ہر چیز حرکت میں ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہر لمحہ اور ہر آن حرکت میں ہے۔ لیکن حرکت میں ہونے کے باوجود ہم اشیاء کو ٹھہرا ہوا دیکھتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جب کوئی چیز ٹھہری ہوئی سامنے ہوتی ہے تو اس پر نظر پندرہ سیکنڈ تک قائم ہو جاتی ہے۔
آنکھ جس کسی چیز کو دیکھتی ہے تو عکس دماغ کی سکرین پر منتقل ہوتا ہے اور روحانی علوم کی روشنی میں پندرہ سیکنڈ تک برقرار رہتا ہے۔ ان پندرہ سیکنڈوں میں کسی چیز کا عکس منتقل ہونا، پرنٹ ہونا، ہلکا، مدہم ہو کر مٹ جانا اور اس کی جگہ دوسرا عکس آ جانا شامل ہے۔
اب قانون یہ بنا کہ اگر کسی ٹارگٹ پر نظر کو پندرہ سیکنڈ سے زیادہ قائم کر دیا جائے تو ایک ہی عکس مسلسل دماغ پر وارد ہوتا رہے گا اور اس طرح اسپیس کی نفی ہونا شروع ہو جائے گی اور جب اسپیس کی نفی یعنی Less ہو جائے گا تو جو عکس بھی دماغ پر وارد ہو گا وہ اسپیس (Space) کی قید سے آزاد ہو جائے گا۔
لوحِ محفوظ کا قانون یہ ہے کہ:
آنکھ کے ذریعے دماغ کے اوپر عکس اس وقت پلٹتا ہے جب آنکھ کے ڈیلوں کے اوپر پلکوں کی چوٹ پڑے۔
چونکہ نظر قائم کرنے میں پلکوں کی حرکت ساکت ہو جاتی ہے، ڈیلوں کی حرکت معطل ہو جاتی ہے، اس لئے دماغ کی اسکرین پر دوسرا عکس منتقل نہیں ہوتا۔ کوئی بھی شخص اگر اپنے اندر اس روحانی صلاحیت کو بیدار کر لے تو وہ اپنے ارادے سے اشیاء، واقعات، ماضی یا مستقبل کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 200 تا 200
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔