مٹھاس یا نمک
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12063
سوال: کتاب جنّت کی سیر میں مراقبہ کے بارے میں پرہیز اور احتیاط کے سلسلہ میں پہلا لفظ بیان کیا گیا ہے کہ روحانی ترقی کیلئے مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے مگر آپ اکثر مٹھاس زیادہ استعمال کراتے ہیں اور نمک کم استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: روحانی ڈائجسٹ میں ہم بیماریوں کا علاج اور مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم جہاں یہ بتاتے ہیں کہ نمک کم سے کم کر دیا جائے وہ روحانی تسکین کیلئے نہیں کہتے بلکہ نفسیاتی مریض کیلئے مشورہ دیتے ہیں دماغی مریض، نفسیاتی مریض، پاگل پن کے مریض، اُن کے لئے ہم کہتے ہیں کہ نمک کم کر دو اور مٹھاس زیادہ کر دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مٹھاس انسان کے زمینی شعور کو طاقت پہنچاتی ہے۔ اگر مٹھاس کم ہو جائے تو انسان کا زمینی شعور کمزور ہو جاتا ہے۔ جب شعور کمزور ہو جاتا ہے تو بسا اوقات اسے ماورائی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ ماورائی دنیا نظر آنے لگتی ہے۔ وہ اس آواز کے اپنے حساب سے معانی پہناتا رہتا ہے چونکہ عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ ایک قسم کا پاگل پن بن جاتا ہے جتنا کوئی آدمی مھاسس زیادہ کھاتا ہے اسی مناسبت سے اس کے زمینی شعور میں کشش ثقل زیادہ ہو جاتی ہے اور پھر وہ دنیاوی زندگی زیادہ اچھی گزارتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کے اندر نمک کی زیادتی ہو جائے تو اس کا شعور کمزور ہو جاتا ہے اور لاشعور متحرّک ہو سکتا ہے۔ لاشعور متحرّک (Active) ہونے سے دنیاوی کام میں خلل پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی استاد تو ہوتا نہیں ہے وہ اس میں اپنے ہی آپ معنی پہناتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے لئے پریشانی خرید لیتا ہے اور گھر والوں کے بھی عذاب بن جاتا ہے۔ دماغی امراض، ٹینشن، ڈپریشن(اگر لو بلڈ پریشر نہ ہو) مرگی ہائی بلڈ پریشر، برص، استقیٰ، جلدی امراض، بے خوابی اور شیزوفرینیا میں نمک کا زیادہ استعمال بہت زیادہ مضر ہے۔ معالج کے مشورہ سے نمک کے استعمال میں احتیاط کرنا ضروری ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 130 تا 131
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔