مرشد کس طرح فیض منتقل کرتا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12075
سوال: فیض سے کیا مراد ہے؟ مرشد جب اپنے مرید کو فیض منتقل کرتا ہے تو وہ کیا چیز منتقل کرتا ہے؟ کیا اس کا تعلق ماورائی لہروں سے ہے۔ ماورائی لہریں اگر منتقل ہوتی ہیں تومرید کے اوپر کس قسم کے تاثرات قائم ہوتے ہیں؟
جواب: دوسرے علوم کی طرح روحانیت بھی ایک علم ہے۔ کوئی بھی استاد اپنے شاگرد کو علم منتقل کرتا ہے، جس طرح دنیاوی علوم کا استاد کسی کو اپنا علم منتقل کرتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد اس کا نام پیر ومرشد ہو اس کا نام روحانی استاد ہو، بہرحال وہ روحانی استاد ہے۔ جس طرح دنیاوی علوم استاد اپنے شاگرد کو منتقل کر دیتا ہے اسی طرح روحانی استاد روحانیت منتقل کر دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیاوی علوم میں استاد کی جو طرزِ فکر ہے اس سے آدمی کافی حد تک متاثر ہوتا ہے اپنے استاد کی جو طرزِ فکر ہے اس کو قبول کر کے اس کے مطابق چلتا ہے لیکن جب روحانی استاد یا روحانی شاگرد کا تذکرہ آتا ہے اور کوئی روحانی استاد روحانیت منتقل کرتا ہے تو استاد کی طرزِ فکر منتقل ہو جاتی ہے مثلاً ایک روحانی آدمی کیلئے ضروری ہے کہ اس کا توکل اللہ کے اوپر ہو اس کے اندر إستغناء ہو، جب اچھے حالات ہوتے ہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب وہ خراب حالات سے گزرتا ہے تو اللہ سے رجوع کرتا ہے، اللہ سے معافی مانگتا ہے، استغفار کرتا ہے اور یہ بھی سوچتا ہے کہ اس میں بھی کوئی بہتری ہے۔ اب جو پریشانی لاحق ہے اس میں بھی اللہ کی طرف سے بہتری ہے، لیکن ہم کمزور ہیں، ضعیف ہیں، ان پریشانیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ ہمیں معاف کر دیں۔ ہمارے لئے اچھا راستہ کھول دیں۔ مقصد یہ ہے کہ روحانیت ایک طرزِ فکر ہے اور روحانی علوم کا تعلق طرزِ فکر سے ہے اور وہ طرزِ فکر یہ ہے کہ روحانی آدمی کا ذہن ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ تمام پیغمبروں کی تعلیمات پر اگر غور کیا جائے اور الہامی کتابوں کا خلاصہ بیان کیا جائے تو ایک ہی حقیقت سامنے آئے گی کہ:
بندے کا اللہ کے ساتھ ایک رشتہ ہے۔ ایک تعلق ہے، بندہ مخلوق ہے اور اللہ خالق ہے۔ جب بندے اور اللہ کا رشتہ استوار ہو جاتا ہے تو بندہ اپنے ہر عمل کو اللہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔
مثلاً اگر وہ کھانا کھاتا ہے تو کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو وسائل مہیا کیے۔ پہلے اچھا کھانا کھاایا پھر یہ کہ اللہ نے مجھے اچھا ہاضمہ دیا یہ نہیں ہُوا کہ میں کھانا کھا کر قے کر دوں، کھانا کھا کر اِسہال ہو جائے۔ مطلب یہ کہ کھانا میں نے کھایا وہ پیٹ میں رہا اور ہضم ہوا۔ اس کا خون بنا، خون سے انرجی بن کر جسم میں دوڑ رہی ہے۔ وہ مسلسل غور و فکر، صبر و شکر کے اعمال سے یہ جان لیتا ہے کہ زندگی میں بندے کا اپنا ذاتی عمل دخل کچھ نہیں ہے۔ ایک آدمی کھانا کھاتا ہے اگر اندر کی مشینری بند ہو جائے، اگر آنتیں چلنا بند ہو جائیں تو کھانا ہضم نہیں ہو گا۔ بندے کی یہ طرزِ فکر بن جاتی ہے کہ انسان درو بست اللہ کے تابع ہے اور جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کر رہا ہے اور جو بھی کچھ اس کو مل رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے مل رہا ہے۔ متقی لوگوں کی یہ پہچان ہے، جن کا ایمان مکمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
جو کچھ بھی ہے سب ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔ (سورۃ آلِ عمران – آیت نمبر 7)
اگر اللہ بارش نہ برسائے، زمین نہ بنائے، اللہ دھوپ نہ نکالے، اللہ چاند نہ نکالے، اللہ زمین میں پانی نہ پیدا کرے تو زمین میں کوئی چیز اُگ ہی نہیں سکتی۔ آپ زمین نہیں بنا سکتے۔ آپ پانی نہیں بنا سکتے، آپ بیج نہیں بنا سکتے۔ اگر گیہوں کا بیج زمین سے ناپید ہو جائے تو بتائیں کون سی ایسی سائنس ہے جو بیج بنا دے گی۔ جو بھی چیز آپ استعمال کرتے ہیں وہ برہحال قدرت کی پیدا کردہ ہو گی۔ ہم زمین کی پیداوار بڑھانے کیلئے کھاد استعمال کرتے ہیں۔ اگر قدرت زمین میں وہ چیزیں پیدا نہ کرے جن سے کھاد بنتی ہے تو کھاد کیسے بن سکتی ہے؟
مثلاً آپ اپنی مرضی سے پیدا بھی نہیں ہو سکتے۔ اگر اللہ نہ چاہے، کون آدمی پیدا ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ پیدائشی پاگل پیدا کر دے، کون سا ایسا علاج ہے جو پاگل پن کو صحیح کر دے؟ پاگل پن کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ نئی نئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً کینسر، کینسر کا ابھی تک علاج ہی دریافت نہیں ہوا ہے۔ اتنے بڑے بڑے سائنٹسٹ ہیں وہ کہتے ہیں، ہم چاند پر چلے گئے، خلاء میں چہل قدمی کر آئے ہیں اور یہ ہو گیا۔ وہ ہو گیا۔ ان کے بڑے سارے مر گئے۔ وہ سائنسی ایجادات سے موت کے ہاتھ میں کیوں پنجہ نہ ڈال سکے؟ موت کو کیوں نہیں مار سکے؟ جب ہم غور کرتے ہیں اپنی زندگی پر زمین کی زندگی پر آئندہ مستقبل کے اوپر ماضی کے اوپر، اِس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے اور اللہ کر رہا ہے۔ مثلاً جب بچہ پیدا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے۔ اگر ماں کے دل میں اللہ محبت نہ ڈالے تو بچہ کی پرورش ہی نہیں ہو سکتی۔
ماں چاہے بلّی ہو، بکری ہو، بھینس ہو، انسان کی ماں ہو، جنّ کی ماں ہو… کسی کی بھی ماں ہو، ایک نظام ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پرورش کیلئے اس کی نشونما کیلئے اللہ ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے۔ اگر اللہ ماں باپ کے دل سے محبت نکال لے تو کوئی بچہ پرورش نہیں پا سکتا، پیدائش سے پہلے اللہ ماں کے سینہ کو دودھ سے بھر دیتا ہے۔ اس میں ماں کون سا کردار ادا کرتی ہے دودھ بنانے میں؟ آپ جتنا بھی گہرائی میں تفکر کریں آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ انسان کچھ نہیں کر رہا ہے، سب کچھ اللہ کر رہا ہے۔ یہ انسان کی نادانی ہے کہ انسان سمجھ رہا ہے کہ سب کچھ میں کر رہا ہوں۔ اچھا سب کچھ آپ کر رہے ہیں تو کاروبار میں نقصان کیوں ہوتا ہے؟ آپ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟
حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا؟ انہوں نے فرمایا کہ ارادوں کی ناکامی سے ، جو میں نہیں چاہتا وہ ہوتا ہے اور جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں ہوتا۔
ارادہ تک تو آپ کو اختیار نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کا تجربہ کریں، بھوک ہے، بھوک خود لگتی ہے، کوئی آدمی بھوک پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکتا کہ ساری زندگی روٹی نہیں کھاؤں گا، ممکن ہی نہیں ہے کھانا کھانا پڑے گا۔ کوئی آدمی ساری زندگی سو نہیں سکتا، اٹھنا پڑے گا، کوئی آدمی ساری زندگی بیدار نہیں رہ سکتا، سونا پڑے گا کوئی آدمی ساری زندگی بے کار نہیں بیٹھ سکتا، چلنا پڑے گا۔ کون سا ایسا مقام ہے آپ کی زندگی میں، میری زندگی میں، زمین کی زندگی میں کہ ہم کہہ سکیں ہماری زندگی، ہماری اپنی زندگی ہے؟
اس فلسفہ کو تو آپ عقلی توجیہ اور دلیل کے ساتھ بیان بھی نہیں کر سکتے۔ آپ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں ہیں مثلاً سائنسی ایجادات میزائل، ایٹم بم اور دوسری عام ایجادات ان کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو، یہ ساری ایجادات چیزوں سے بنی ہیں جو پہلے سے موجود ہیں۔ اگر گندھک نہ ہو، نَوشادر نہ ہو تو بارود نہ بنے گا۔ آپ ایک پٹاخہ بھی نہیں بنا سکتے۔ کوئی سائنس دان زمین بنا کر دکھا دے اور زمین کے اندر جتنی صلاحیتیں ہیں، جتنی معدنیات ہیں وہ بنا کر دکھا دے۔ زمین کے اوپر پہلے سے موجود یورینیم دریافت ہوئی تو ایٹم بم بنا۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں یورینیم نہ پیدا کرتے تو ایٹم بم نہیں بن سکتا تھا۔ اس میں لوہے کی ضرورت ہے۔ لوہا نہ ہو تو میزائل تو بڑی بات ہے آپ کیل بھی نہیں بنا سکتے۔ جتنی بھی کائنات میں چیزیں ہیں اور جتنی بھی ایجادات اور ترقی ہوئی ہے۔ آدم سے لے کر اب تک اس میں وسائل ضرور زیر بحث آئیں گے۔ زمینی وسائل کو اگر آپ نظر انداز کر دیں تو کوئی ایجاد ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ نئی نئی ایجادات ہوں، وہ خود دعوت دے رہے ہیں کہ سائنس دان وسائل استعمال کریں۔
قرآن پاک میں اللہ میاں کا یہ ارشاد پڑھیں کہ ہم نے لوہا اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اب آپ دیکھیں آپ جہاں بیٹھے ہیں، یہاں آپ کو دس جگہ لوہا نظر آئے گا۔ چھت میں لوہے کا گاڈر، دروازہ میں کنڈی، چھپکا، کھڑکی میں گرل، کنویں کے اوپر ڈول کھینچنے کیلئے چرخی، پانی لیجانے کیلئے پائپ۔ زمین کھودنے کیلئے بیلچہ گیتی۔ کھرپا، باڑ، کانٹے کیل، لوہے کی بڑی ساری قینچی اور جناب لوہے سے مراد دھات ہے۔ اس میں المونیم بھی ہے، تانبا بھی ہے، پیتل بھی ہے۔ اگر تمام دھاتوں کا ایک نام لوہا رکھ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ لوہے کا استعمال آپ کوملے گا۔ ایٹم بم میں میزائل میں ریل کی پٹری میں پانی کے جہاز میں وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ خود کہہ رہے ہیں کہ میں نے جو وسائل پیدا کر دیئے ہیں ان کو تم استعمال کرو اور یہ وسائل اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ان کے استعمال سے انسان نئی نئی ایجادات کرے۔ غرض یہ کہ زمین پر کچھ بھی تخلیق ہو اللہ کے بنائے ہوئے وسائل سے ہی تخلیق ہوتی ہے۔
روحانی استاد جو علم منتقل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ کا اللہ تعالیٰ سے ایسا ربط اور تعلق قائم ہو جائے کہ بندہ بہترین غذا کھائے، بہترین لباس پہنے، بہترین گھر میں رہے، بہترین خوشبو، بہترین باغ لگائے۔ درختوں کے سائے میں طیور کی آواز سنے، ہوا سے جھومتے درختوں کے ساز سنے لیکن ذہن اللہ سے ادھر ادھر نہ ہو۔
مثال:
آپ دن بھر کام کرتے ہیں، کھانا بھی کھاتے ہیں، چلتے بھی ہیں، گاڑی میں سفر کرتے ہیں، دفتر بھی جاتے ہیں لیکن دن کی روشنی سے آپ کا ذہن کبھی نہیں ہٹتا، اختیاری طور پر یا غیر اختیاری طور پر اگر دن کی روشنی سے آپ کا ذہن ہٹ جائے گا تو آپ کے سامنے تاریکی آ جائے گی اور آپ نہ چل پھر سکیں گے، نہ پڑھ سکیں گے۔ رات ہوتی ہے رات کی تاریکی بھی ایک روشنی ہے، جتنے رات کے کام ہیں مثلاً سونا، آرام کرنا، ذہن کا سکون وغیرہ وغیرہ۔ اگر رات کی روشنی سے آپ کا ذہن ہٹ جائے گا تو آپ رات کے کام نہیں کر سکتے۔ ہماری زندگی کا تجربہ ہے کہ ہم دن میں رہتے ہوئے اختیاری طور پر اور غیر اختیاری طور پر روشنی سے الگ نہیں ہو سکتے تو اسی صورت میں جس اللہ نے روشنی بنائی ہے تو اس اللہ سے ہم کیوں ہم رشتہ نہیں رہ سکتے۔ دراصل یہ پریکٹس ہے اس بات کی کہ آپ کا ذہن یہ جان لے کہ میں روشنی میں چل رہا ہوں، روشنی میں کھا رہا ہوں، روشنی میں لکھ رہا ہوں، روشنی میں سو رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ روشنی ہمارے اوپر محیط ہے۔
روحانی استاد اپنے شاگرد میں ایسی طرزِ فکر منتقل کر دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرے شادی کرے، بچوں کی تربیت کرے کاروبار کرے، جس طرح دن کی روشنی اس پر محیط رہتی ہے اور وہ سارے کام کرتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ اس پر محیط ہو جاتا ہے اور قرآن پاک کی اس آیت کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
’’اللہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہیں۔‘‘
دنیاوی علوم اور روحانی علوم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ روحانی استاد اگر اس کو روحانیت آتی ہے تو وہ مرید کو وہ طرزِ فکر منتقل کر دیتا ہے جس طرزِ فکر میں آپ کا اور اللہ کا براہِ راست رشتہ قائم ہے۔ آپ کچھ بھی کریں جہاں بھی جائیں، آپ کا ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہٹے گا اور آپ کے اندر یہ طرزِ فکر منتقل ہو جائے گی تو ظاہر ہے آپ کو اللہ تعالیٰ سے جتنی قربت منتقل ہو گی اتنے ہی آپ اللہ کے دوست بن جائیں گے۔ اللہ کے قریب ہو جائیں گے۔ دوستی کسے کہتے ہیں۔ دوستی کا مطلب ہے قربت اور دشمنی کا مطلب ہے دوری۔ جب آپ اللہ تعالیٰ سے قریب ہو گئے تو اللہ کے دوست ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے کہ:
’’اللہ کے دوستوں کو غم و خوف نہیں ہوتا۔‘‘
آپ کی زندگی جو دوزخ بنی ہوئی ہے اگر اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل ہو جائے تو یہ ساری زندگی جنّت بن جائے گی۔
جنّت کیا ہے؟ جنّت کی خصوصیت یہ ہے کہ جنّت میں تجلّی کا دیدار ہو گا۔
اگر جنّت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ ہو تو جنّت کا کوئی مَصرف نہیں رہے گا۔
دوزخ اللہ تعالیٰ سے دوری کا نام ہے تو اس دنیا میں آپ اللہ تعالیٰ سے قریب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ سے آپ کا رشتہ اس طرح جڑ گیا کہ آپ کھا رہے ہیں تو اللہ آپ کے سامنے ہے جیسے دن کی روشنی آپ کے سامنے ہے۔ پہن رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے سامنے ہے جیسے دن کی روشنی آپ کے سامنے ہے۔ آپ کاروبار کر رہے ہیں تو آپ کے سامنے اللہ ہے، جیسے دن کی روشنی یا رات کی تاریک روشنی آپ کے سامنے ہے۔
حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر آدمی اپنی جنّت دوزخ ساتھ لئے پھرتا ہے۔ مخلوق میں سے قریب ترین بندہ اللہ کا اگر کوئی ہوتا ہے تو وہ پیغمبر ہوتا ہے۔ پیغمبروں کی طرزِ فکر جب آپ کو منتقل ہو گی تو آپ بھی اللہ تعالیٰ سے قریب ہو جائیں گے۔ روحانی استاد کا یہ بہت بڑا وصف ہے کہ وہ اپنے شاگرد کے اندر وہ طرزِ فکر منتقل کر دیتا ہے جو طرزِ فکر اس کو حضورﷺ سے منتقل ہوئی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 135 تا 140
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔