مراقبہ کیا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11840
سوال: مراقبہ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر خاص و عام جانتا ہے مگر مراقبہ کسے کہتے ہیں اور مراقبہ کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: جب ہم کوئی علم سیکھتے ہیں یا کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس چیز کو سمجھنے اور جاننے کے لئے تفکر کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ تجسّس پیدا ہو جاتا ہے کہ اس چیز کی اصلیت کیا ہے اور یہ کیوں اور کس لئے ہے۔ اگر چھوٹی سی بات کی بڑی اہمیت ہے اور اگر کسی بڑی سے بڑی بات پر غور و فکر نہ کیا جائے تو وہ بڑی بات غیر اہم اور زائد بن جاتی ہے۔ تفکر سے ہمیں کس شئے کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اور پھر تفکر کے ذریعہ اس علم میں جتنی گہرائی پیدا ہوتی ہے اسی مناسبت سے کسی چیز اور اس کی صفات سے ہم باخبر ہو جاتے ہیں۔
مراقبہ دراصل اس تفکر کا نام ہے جس تفکر سے انسان اس علم کو حاصل کر لیتا ہے جو اس کی اپنی انا، ذات، شخصیت یا روح کا علم ہے۔ یہ علم حاصل ہونے کے بعد کوئی انسان اپنی انا یا روح سے وقوف حاصل کر لیتا ہے۔
بظاہر مراقبہ کا عمل ایسا لگتا ہے کہ کوئی شخص آنکھیں بند کر کے اور گردن جھکا کر بیٹھا ہوا ہے لیکن صرف آنکھیں بند کر کے اور گردن جھکا کر بیٹھنا مراقبہ کے مفہوم کو پورا نہیں کرتا۔ مراقبہ دراصل ایک طرز فکر ہے جس کے ذریعہ مراقبہ کرنے والا فرد خود کو ظاہری حواس سے لاتعلق اور آزاد کر کے باطنی حواس میں سفر کرتا ہے۔
اب ہم یہ تلاش کریں گے کہ مراقبہ سے ملتی جلتی کیفیت مراقبہ کی ایک مخصوص نشست کے بغیر بھی ہم میں موجود ہے یا نہیں۔
ظاہر حواس سے آزادی یا دوری کی کیفیت ہماری زندگی میں ارادتاً یا غیر ارادی طور پر دونوں طرح ظاہر ہوتی ہے مثلاً ہم سوتے ہیں۔ سونے کی حالت میں ہمارا دماغ ظاہری حواس سے تعلق منقطع کر لیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ قطع تعلق عارضی ہوتا ہے لیکن اس کیفیت کو ظاہری حواس سے قطع تعلق کے علاوہ اور کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مراقبہ دراصل نیند کو بیداری میں منتقل کرنے کا دوسرا نام ہے۔
ہر انسان پیدائش سے موت تک دو کیفیات میں سفر کرتا ہے۔ یعنی انسانی دماغ پر ہر آن اور ہر لمحہ دو کیفیات متحرک رہتی ہیں۔ ایک کیفیت کا نام بیداری اور دوسری کیفیت کا نام نیند یا خواب ہے۔ بیداری کی حالت میں وہ زمان و مکان میں مقید ہے لیکن خواب کی حالت میں زمان و مکان کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعہ خواب کو بیداری میں منتقل کر کے زمان و مکاں کی حد بندیوں سے آزادی حاصل کرنے کی مشق کی جاتی ہے۔ مراقبہ میں کم وبیش وہ تمام حالتیں انسان کے اوپر وارد ہو جاتی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ سو جاتا ہے یا خواب دیکھتا ہے۔
یہ اعتراض کہ خواب کی حیثیت محض خیالی ہے، صحیح نہیں ہے۔ تمام آسمانی کتابوں اور قرآن پاک میں خوابوں کا لامتناہی سلسلہ بیان ہوا ہے۔ قرآن شریف میں خوابوں کا ذکر واضح طور پر نشان دہی کرتا ہے کہ خواب کی دنیا زمان و مکاں سے آزاد ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان مراقبہ کے ذریعہ خود کو خواب کی کیفیت میں منتقل کرتا ہے تو اس پر سے زمان و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور مشق کر کے وہ خواب کی کیفیات میں اسی طرح سفر کرتا ہے جس طرح بیداری کی کیفیات اور واردات سے گزرتا ہے۔
مندرجہ بالا سطور جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے ارشادات عالیہ ہیں جو موصوف نے محفل مراقبہ میں بیان فرمائے ہیں۔
اب میں ان محافل مراقبہ کا تذکرہ کرتا ہوں۔ جو حضرت قبلہ کی سرپرستی میں منعقد ہوتی ہیں۔
موجودات کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اس کی کوئی بنیاد ہو۔ بنیاد کے بغیر کسی چیز کا قیام ممکن نہیں ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں ابہام ہو اور سمجھ میں نہ آتی ہو۔ مثلاً کرسی کی پہچان کا ذریعہ اس کے چار پیر ہیں۔ کوئی مکان اس وقت مکان ہے جب زمین کے ایک مخصوص رقبہ پر بنیاد قائم کر کے ان بنیادوں پر دیواریں تعمیر کی جائیں۔ ہم کسی علم کو اس وقت سیکھ سکتے ہیں جب ہمیں اس کے فارمولے معلوم ہوں اور یہ فارمولے ہی اس علم کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے:
’’ اللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘ (سورۃ النّور – آیت نمبر 35)
یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کائنات اور کائنات کے اندر بے شمار عالمین اور کہکشانی نظام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور حکمت کیا ہے؟ یہ بات اللہ تعالیٰ جانتے ہیں یا وہ مقربین جانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے تخلیقی فارمولے اپنے مقربین کو کس حد تک اور کتنے بتائے ہیں یہ بات زیر بحث نہیں ہے۔ بہرکیف ہم اتنا جانتے ہیں کہ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے اور اس کا تذکرہ بار ہا قرآن پاک میں کیا گیا ہے۔ کائنات کی بنیاد اللہ کا نور ہے۔ کائنات کے قیام کی بنیاد کے پیش نظر یہ بات لازم اور ضروری ہو گئی کہ انسان خود اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک بنیاد اور ایک مرکز پر قائم ہوں۔
ہمارا روزمرّہ کا مشاہدہ ہے کہ ہماری تمام حرکات و سکنات، توہمات، خیالات، تصورات اور احساسات گوشت پوست کے ڈھانچہ کے تابع نہیں ہیں۔ کیونکہ جب جسمِ انسانی سے روح اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو گوشت پوست کے جسم میں کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔ جب تک روح جسم کے ساتھ موجود ہے زندگی کے تمام تقاضے اور زندگی میں کام آنے والی سب تحریکات موجود ہوتی ہیں یعنی جسمِ انسانی کی بنیاد روح ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روح کا علم قلیل دیا گیا ہے لیکن محل نظر یہ بات ہے کہ قلیل اور لامحدود بھی ایک علم ہے۔ واضح یہ کرنا ہے کہ لامحدود علم کے قلیل لامحدود علم کو جاننے والوں نے اس علم کو سمجھنے کے لئے چند فارمولے بنائے ہیں اور ان فارمولوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اس علم سے روشناس کرایا ہے، اگر اس پر روشنی ڈالی جائے کہ:
یہ علم کہاں سے شروع ہوا؟ اور
یہ فارمولے کس کس طرح ارتقا پذیر ہوئے؟
تو بات طویل ہو جائے گی۔ دراصل ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ انسان فی الواقع وہ انسان نہیں ہے جسے ہم انسان کہتے یا سمجھتے ہیں۔ ہم گوشت پوست اور ہڈیوں کے پنجر کو آدمی کہتے ہیں۔ جبکہ یہ سب مفروضہ ہے۔ اصل انسان وہ ہے جو اس گوشت پوست کے جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے متحرک رکھتا ہے اور جس کو قرآن پاک نے ‘‘روح’’ کا نام دیا ہے۔
****
ہر انسان اس بات سے واقف ہے کہ اس کی زندگی کا دارومدار گوشت پوست کے جسم پر نہیں ہے اور وہ زندگی میں دو باتوں کا تجربہ ضرور کرتا ہے۔
ایک یہ کہ وہ اپنے پورے شعوری حواس میں ہے اور زندگی رواں دواں ہے۔ دوسرا تجربہ یہ کہ وہ سو جاتا ہے لیکن پھر سانس کی آمد و شد کے ساتھ زندگی کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ انہی دو حالتوں میں وہ زندگی گزارتا ہے۔
سونے کی حالت میں اس کا رشتہ گوشت پوست کے جسم سے غیر شعوری رہ جاتا ہے۔
ان دو حالتوں کے علاوہ تیسری حالت جو ہر انسان پر وارد ہوتی ہے وہ موت ہے۔ موت ایسی حالت ہے کہ جس میں روح اس خاکی جسم سے رشتہ منقطع کر لیتی ہے۔ اس گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ انسان کے اوپر تین حالتیں وارد ہوتی ہیں۔
ایک بیداری،
دوسری نیند، اور
تیسری موت
موت اور نیند میں یہ قدر مشترک ہے کہ:
نیند میں جسم سے روح کا واسطہ براہ راست ہوتا ہے، اور
بیداری میں بالواسطہ یعنی شعور کی معرفت، اور
موت میں روح اس جسم سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے۔
بات وہی ہے کہ زندگی کا قیام روح پر ہے اور جسمانی تقاضے جن بنیادوں پر قائم ہیں وہ روح کی تحریکات ہیں۔
روح زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنا ایک میڈیم (Medium) بناتی ہے۔ اس میڈیم کو ہم کروموسوم (Chromosome) کا نام دے سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
’’ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘
یعنی روح نے اپنے لئے ایک میڈیم بنا لیا۔ اور اس میڈیم کو پروان چڑھا کر حواس بخش دیئے۔
روح دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک جزو ہے اور اس جزو میں اللہ کی وہ تمام مشیئت اور وہ تمام اوصاف جس کا علم اللہ نے ودیعت کرنا پسند فرمایا۔ اس میں موجود ہے۔ یہ علم جزو کو کس طرح حاصل ہوا یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انسان کے اندر تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار لطیفے (جنریٹر) کام کرتے ہیں۔ صوفیائے کرام پر جن اسمائے الٰہیہ کا انکشاف ہوا ہے ان کی تعداد بھی تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔ اللہ کا ہر اسم اللہ کی ایک صفت ہے اور یہی علم شاخ در شاخ لامحدود دائروں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’تمہارے تمام سمندروں کا پانی روشنائی بن جائے اور سارے درخت قلم بن جائیں پھر بھی اللہ کی باتیں پوری نہیں ہوں گی۔‘‘ (سورۃ لقمان – آیت نمبر 47)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 13 تا 17
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔