مذہب کی حقیقت کیا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13325
سوال: جب ہم مذہب اور غیر مذہب کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ دونوں طرزوں کا کوئی عقیدہ ضرور ہوتا ہے۔ مذہب کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے اور لامذہبیت کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کو نہ ماننے والے سکون کی زندگی نہیں گزارتے تو ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مذہب کو ماننے والے بھی بے سکون زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی بے یقینی سے بھرپور ہوتی ہے۔ درخواست ہے یہ بتایئے کہ مذہب کیا ہے؟ مذہب کی حقیقت کیا ہے، مذہب کو ماننے والے کو غیر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلہ میں کس قسم کا فائدہ حاصل ہونا چاہئے یا ہوتا ہے؟
جواب: آدمی جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کر سکے۔ چنانچہ وہ عقیدہ یقین کا مقام حاصل کر لیتا ہے حالانکہ وہ محض فریب ہے۔ کیونکہ آدمی جو کچھ خود کو ظاہر کرتا ہے حقیقتاً وہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے۔ اس قسم کی زندگی گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے۔ اب قدم قدم پر اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہو جائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہو گا۔
بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہو رہی ہے اور اگر تلف نہیں ہو رہی تو سخت خطرے میں ہے۔ یہ سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ جب آدمی کی زندگی وہ نہیں ہے جسے وہ گزار رہا ہے یا جسے وہ پیش کر رہا ہے، جس پر اس کا عمل ہے، اس عمل سے وہ نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے، جو اس کے حسبِ خواہ ہوں لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردّ و بدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں کو بدلتی رہتی ہے اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے یا ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
آدمی کے دماغ کی ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ، اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہونا ہے۔ یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے لیکن جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہو گی اسی قدر آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی اور جس مناسبت سے شک اور بے یقینی کی زیادتی ہو گی زندگی ناکامیوں میں بسر ہو گی۔
آدمی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے اللہ کے عطا کئے ہوئے علوم کو خود ساختہ اور غلط بنیادوں پر پرکھا اور ان سے انکاری ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر علم کی بنیاد روشنی کو قرار دیا ہے۔ آدمی کو چاہئے تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ روشنیوں کی قسمیں اور روشنیوں کا طرز عمل معلوم کرتا لیکن اس نے کبھی اس طرف توجّہ نہیں کی اور یہ چیز ہمیشہ پردے میں رہی۔
آدمی یہ قاعدے معلوم کرنے کی طرف متوجّہ ہی نہیں ہوا جو روشنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آدمی یہ طرز عمل اختیار کرتا تو اس کے دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی اور وہ یقین کی طرف قدم اٹھاتا۔ اس نے روشنیوں کی قسمیں معلوم نہیں کیں، نہ روشنیوں کی طبیعت کا حال معلوم کرنے کی کوشش کی۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ روشنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ وہ صرف مٹی کے پُتلے سے واقف ہے اس پُتلے سے جس کے اندر اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہے۔ جس کو اللہ نے سڑی ہوئی مٹی سے بنایا ہے۔ حقیقت وہ ہے جو اللہ نے روح کی شکل میں پھونکی ہے۔
مذہب ہمیں یقین کے اس پیٹرن میں داخل کر دیتا ہے جہاں شک و شبہات اور وسوسے ختم ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنی باطنی نگاہ سے غیب کی دنیا اور غیب کی دنیا میں موجود چلتے پھرتے فرشتوں کو دیکھ لیتا ہے۔ وہ خالق کی صفات کو اپنے اوپر محیط دیکھتا ہے۔ روحانی نقطۂ نگاہ سے اگر کسی بندے کے اندر باطنی نگاہ متحرّک نہیں تو ایمان کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔ جب کوئی بندہ ایمان کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی طرزِ فکر میں سے تخریب اور شیطنیت نکل جاتی ہے اور اگر بندے کے اوپر یقین (غیب کی دنیا) منکشف نہیں ہوتی تو ایسا بندہ ہر وقت تخریب اور شیطنت کے جال میں گرفتار رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ایجادات اور لامتناہی آرام و آسائش کے باوجود ہر شخص بے سکون، پریشان اور عدم تحفّظ کا شکار ہے۔ سائنس چونکہ مَیٹر (Matter) یعنی مادہ پر یقین رکھتی ہے اور مادہ عارضی اور فکشن (Fiction) ہے اس لئے سائنس کی ہر ترقی، ہر ایجاد اور آرام و آسائش کے تمام وسائل عارضی اور فنا ہو جانے والے ہیں۔ جس شئے کی بنیاد ہی ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہو اس سے کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہو سکتی۔
مذہب اور لامذہب میں یہ بنیادی فرق ہے کہ:
لا مذہبیت انسان کے اندر شکوک و شبہات، وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو جنم دیتی ہے… جبکہ
مذہب تمام احساسات، خیالات، تصوّرات اور زندگی کے اعمال و حرکات کو ایک قائم بالذّات اور مستقل ہستی سے وابستہ کر دیتا ہے۔
موجودہ دَور بے یقینی کا دور اس لئے بن گیا ہے کہ آدمی کا عقیدہ واحد ذات اللہ کے ساتھ کمزور ہو گیا ہے۔
خدا نے دنیا میں یہ سارے وسائل اس لئے پیدا کئے ہیں کہ آدم زاد ان کو اپنے آرام و آسائش کے لئے خوش ہو کر استعمال کرے۔ لیکن باغی آدم زاد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ….دنیا ہمارے لئے…. ہم دنیا کے لئے …. ہیں۔ ایک مشفق باپ اپنے بیٹے کو طرح طرح کے خوشنما کھلونے لا کر دیتا ہے۔ بیٹا ان کھلونوں میں اس طرح مگن اور گم ہو جاتا ہے کہ باپ کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔ کیا کوئی باپ بیٹے کی اس غلط روش کو پسند کرے گا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ پھر جب نَوعِ انسانی اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دے لے اور اپنے خالق اللہ سے اس کا تعلق صرف زبانی جمع خرچ کی طرح رہ جائے تو اسے سکون کیسے مل سکتا ہے۔
مذہب کی بنیاد ہی یہ ہے اوّل آخر، ظاہر باطن، بندہ کی مرکزیت خالقِ کائنات اللہ ہو۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کو مستحکم کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ نَوعِ انسانی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بات پر دھیان نہیں دیا۔ ایک شیطان کے پُرفریب جال میں پھنس کر بے سکون ہو گئی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 243 تا 245
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔