مادری زبان میں خیالات
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13259
سوال: میں ٹیلی پیتھی کے موضوع پر آپ کی کتاب کا مطالعہ کر چکی ہوں۔ اس موضوع پر ایک سوال میرے ذہن میں آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں جو خیالات آتے ہیں وہ ہماری زبان میں ہوتے ہیں یعنی ہم جو کچھ سوچتے ہیں وہ مادری زبان میں ہوتا ہے۔ اگر دو اشخاص کے درمیان خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور دونوں کی مادری زبانیں الگ الگ ہیں تو پیغام وصول کرنے والا، پیغام بھیجنے والے کی بات کو کس طرح سمجھے گا؟ کیونکہ دونوں کی زبانوں میں فرق ہے۔
جواب: انسان کا ذہن اطلاعات کا مجموعہ ہے۔ انسان کے ذہن میں جو حرکات واقع ہوتی ہیں ان کی تحریک اطلاع سے ملتی ہے۔ تمام طبعی تقاضے بھی اطلاع سے جنم لیتے ہیں۔ ہم جسے خیال کہتے ہیں وہ اطلاع یا انفارمیشن کا مظاہرہ ہے۔ مثلاً ہمارے ذہن میں بھوک کی اطلاع وارِد ہوتی ہے۔ یہی اطلاع گہری ہو کر خیال بن جاتی ہے۔ خیال میں تصویری خدوخال موجود ہوتے ہیں لیکن یہ اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ ذہن انہیں صرف ادراک کی حدود میں محسوس کرتا ہے۔ خیال میں بھوک کی اطلاع کے ساتھ ساتھ اس کے معانی بھی شامل ہوتے ہیں یعنی بھوک کن چیزوں سے مٹائی جاتی ہے۔ چنانچہ اطلاع اور اس میں معانی دونوں رخ مل کر خیال کو تشکیل دیتے ہیں۔
خیال میں معنوی اعتبار سے پوری نَوعِ انسان نقطۂِ اِشتراک رکھتی ہے۔ جتنے بھی بنیادی تقاضے ہیں، انہیں ہر انسان ایک ہی طرح قبول کرتا ہے…. اسی طرح اشیاء کو سمجھنے میں بھی انسانوں کا ذہن مماثلت رکھتا ہے۔ نَوعِ انسان کا کوئی بھی فرد ہو جب وہ پانی کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں پانی کی صفات اور پانی کی معنویت آتی ہے۔ سارے انسان پانی کو ایک ہی طرح سے سمجھتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ یہی حال دوسرے تمام بنیادی معاملات کا ہے۔
انسان اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے زبان کا استعمال کرتا ہے۔ وہ منہ اور زبان کی مدد سے آواز نکال کر اپنا مطلب مخاطب تک پہنچاتا ہے۔ مختلف آوازوں کے معانی مقرر کر لئے گئے ہیں اور ان معانی کی مدد سے ایک دوسرے کی بات سمجھ لی جاتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ زبان و بیان کے معاملے میں بھی اوّلیت معانی کو حاصل ہے آواز یا الفاظ ثانویت رکھتے ہیں۔ ہم جب کوئی لفظ منہ سے ادا کرتے ہیں تو مخاطب تک لفظ نہیں اس کے معانی منتقل ہوتے ہیں۔ جب ہم لفظ پانی کہتے ہیں تو اس سے مراد…. پے،الف،نون،یے…. نہیں ہوتا بلکہ پانی کی معنویت اور پانی کی خصوصیت ہوتی ہے جو مخاطب سمجھتا ہے۔
پوری نَوع میں ایک ہی ذہن کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارے انسانوں میں بنیادی تقاضے اور ان کے معانی ایک جیسے ہیں۔ ہر شخص میں خیالات ایک ترتیب سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ انہیں ایک طرز پر محسوس کرتا ہے۔ اس وَحدت کا تعلق انسان کی روح سے ہے۔ روح وہ اکائی یا یونٹ ہے جس کے ذریعے سارے انسان ایک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ روح ہی کی صلاحیت کے ذریعے انسان مختلف طریقۂِ بیان استعمال کر کے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ چنانچہ جسے روح یا انسان کا لاشعور کہا جاتا ہے وہ تمام طریقوں سے واقف ہے۔
اسی لئے جب ٹیلی پیتھی کے ذریعے کوئی شخص اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے تو مادری زبان الگ ہونے کے باوجود مطلب دوسرے شخص پر واضح ہو جاتا ہے۔ انسان کے لاشعور میں ایک کمپیوٹر نصب ہے جو مترجم کا کام کرتا ہے جیسے ہی الفاظ کے جامے میں خیالات اس یونٹ تک پہنچتے ہیں وہ شعوری اُسلوب کے مطابق مادری زبان میں ترجمہ ہو جاتے ہیں مثلاً ایک پیغام بھیجنے والا انگریزی میں لفظ پانی ادا کرتا ہے تو اردو سمجھنے والے شخص کے ذہن میں اردو لفظ پانی ہی منتقل ہو گا۔ یہی حال دوسرے تمام خیالات کا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 208 تا 209
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔