قلندر عورت
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2538
سینکڑوں سال کی تاریخ میں مشہور و معروف اولیاء اللہ کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایک عورت کی نشاندہی ہوتی ہے اور اسے بھی آدھا قلندر کہہ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ مرد کسی علم میں Ph.Dکرتا ہے۔ عورت بھی Ph.Dکرتا ہے کیا ہم عورت کو آدھا ڈاکٹر کہتے ہیں۔ ایک عورت جہاز اڑاتی ہے کیا ہم اسے آدھا پائلٹ کہیں گے؟ جس طرح مرد قلندری صفات کا حامل ہے اسی طرح جب عورت میں قلندرانہ صفات متحرک ہو جاتی ہیں تو وہ بھی پوری قلندر ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا روحانی طور پر عورت کی تخصیص کی جا سکتی ہے؟ کیا روح کمزور اور حقیر ہوتی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو عورت کے روحانی مراتب کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
سوال: خواتین پوچھتی ہیں کہ تاریخ میں اولیاء اللہ مردوں کی طرح ان عورتوں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا جو اللہ کی دوست ہیں جبکہ جو صفات قرآن میں مردوں کے لئے بیان ہوئی ہیں وہی صفات عورتوں کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ اگر قرآن کریم کے نزدیک عورت کا مقام مرد سے کم تر ہوتا اور اس کی بزرگی اور عظمت مرد کے مساوی نہ ہوتی تو قرآن پاک میں “سورۃ مریم” حضرت مریمؑ کے بجائے حضرت عیسیٰ ؑ سے منسوب ہوتی۔ سورۃ النساء کا نام”سورۃ النساء” ہونا خود عورت کی فضیلت ہے۔
یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دنیاوی معاملات میں عورت مرد کے برابر ہو لیکن روحانی صلاحیتوں اور ماورائی علوم میں وہ مردوں سے کمتر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نے عورت کے معاملے میں بخل سے کام لیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مادری نظام ختم ہونے کے بعد “قلم” پر مرد حضرات کی اجارہ داری قائم ہو گئی تھی۔
لاکھوں سال کی تاریخ میں کوئی ایک فرد اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ عورت ایک ماں ہے جو نو ماہ اور دو سال تک اپنا خون جگر بچے کے اندر انڈیلتی رہتی ہے۔ یہ بدنصیبی اور ناشکری ہے کہ ہم اس کو تفریح کا ذریعہ قرار دیں۔ بے روح معاشرے نے عورت کو مرد کے مقابلے میں ایسا کردار بنا دیا ہے جس کو دیکھ کر گردن ندامت سے جھک جاتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 35 تا 37
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔