قلم خشک ہو گیا
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13479
سوال: حضور اکرمﷺ کا ارشاد عالی مقام ہے کہ ’’قلم لکھ کر خشک ہو گیا‘‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہونا تھا جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے سے لکھ دیا گیا ہے۔ جب ہم زندگی مجبوری کی حالت میں بسر کر رہے ہیں تو ہمارا اختیار کیوں زیر بحث آتا ہے؟
جواب: ’’قلم لکھ کر خشک ہو گیا‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ازل سے پہلے جو کچھ موجود تھا، اللہ تعالیٰ نے ’’کُن‘‘ کہہ کر اس کا مظاہرہ فرمایا۔ اس بات کو ہم موجودہ دَور میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ موجود تھا جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس کا مظاہرہ ہو تو جو کچھ ان کے ذہن میں تھا اس کی ایک فلم بن گئی اور یہ فلم مسلسل، متواتر اور بغیر کسی وقفے کے چل رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ہی فلم بار بار ڈسپلے Displayہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نَوع اپنے خدوخال، مزاج ، جذبات و احساسات کے اعتبار سے ایک ہی دائرے میں سفر کر رہی ہے۔ مثلاً گائے کی شکل و صورت مقرر ہے۔ آج سے کئی ہزار سال پہلے جو گائے کی شکل و صورت اور حسیات تھیں وہی آج بھی ہیں۔ نَوعِ انسانی کی جو شکل آج سے کئی ہزار سال پہلے تھی وہی آج بھی ہے۔ اب سے سینکڑوں اور ہزاروں سال پہلے زندگی گزارنے کے جو تقاضے موجود تھے وہی آج بھی ہیں۔ مثلاً ہزاروں سال پہلے آدمی کو بھوک لگتی تھی۔ پیاس ہوتی تھی۔ اَولاد کا تقاضہ اس کے اندر پیدا ہوتا تھا تو آج بھی یہ سب تقاضے اسی طرح موجود ہیں۔ سب کچھ عملاً وہی ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا ہے کہ جذبات میں کبھی تیزی آ جاتی ہے اور کبھی سست روی پیدا ہو جاتی ہے۔ اب ہم اس بات کو اس طرح کہیں گے کہ ماضی کو دہرایا جا رہا ہے۔ تہذیبی اور تمدنی نقطہ نظر سے بھی اگر غور کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ماضی دہرایا جاتا ہے۔
دس ہزار سال پہلے کا دَور تھا۔ پتھر کے زمانے سے ترقی کر کے انسان آج ایٹمی دَور میں داخل ہو گیا ہے۔ لیکن پھر دس ہزار سال بعد وہ پتھر کے دَور میں داخل ہو جائے گا۔ (اس کی وجوہات پر روشنی ڈالنا اس وقت ہمارے پیشِ نظر نہیں ہے)۔ یعنی ایک زنجیر ہے جس میں آدمی حواس کے اعتبار سے بچپن میں ہوتا ہے اور پھر اس کا شعور ترقی کر کے بالغ ہو جاتا ہے۔ جب شعور بلوغت کے دَور میں پہنچتا ہے تو آدمی اس کے اوپر اپنی عقل سے موت وارِد کر دیتا ہے اور چین (Chain) پھر اُلٹ جاتی ہے۔
اس مختصر تمہید کے بعد بتانا یہ مقصود ہے کہ ساری کائنات ہر لمحہ ہر آن پیدا ہو رہی ہے اور ہر لمحہ موت سے گزر رہا ہے۔ جب پہلے لمحے پر موت وارِد ہوتی ہے تو دوسرا لمحہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ رہا ہے۔ اسی بات کو قرآنِ پاک میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
’’ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔‘‘ (سورۃ البقرہ – 156)
اس بات سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آدمی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا جو پروگرام بنایا ہے اور جو بار بار اپنا مظاہرہ کر رہا ہے اس کا ایک جُزو وہ حدود (اختیار) بھی ہیں جو اس نے انسان کو عطا کی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 191 تا 193
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔