فِقہی علم کیا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12055
سوال: حضورﷺ کی حدیث ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ درخواست ہے کہ اس بات کی وضاحت کر دیں کہ علم سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد فِقہی علم ہے؟
جواب: رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے علم حاصل کرنا عورت اور مرد پر فرض ہے۔ حضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اگر تم کو چین میں علم ملے تو چین میں جا کر حاصل کرو۔ دینی علم ہو یا دنیاوی علم دونوں کا سیکھنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں جو علوم اللہ تعالیٰ نے بیان کئے ہیں اس کے تین درجے ہیں۔
قرآن پاک کا ایک حصّہ ان علوم سے متعلق ہے جو پیدائش سے پہلے کی زندگی سے متعلق ہیں یعنی آدمی پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا اور پیدائش سے پہلے اس کے اوپر کیا کیفیات گزریں اور کن مراحل سے گزر کر وہ اس دنیا میں آیا۔ دوسرا حصّہ وہ ہے جب آدمی مر جاتا ہے تو مرنے کے بعد آدمی کہاں چلا جاتا ہے، کہاں رہتا ہے، مرنے کے بعد کی زندگی کیا ہے، حشر و نشر کیا ہے، حساب کتاب کیا ہے، جنّت دوزخ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک حصّہ قرآن پاک کا ان علوم سے بحث کرتا ہے جو ہماری پیدائش سے متعلق ہیں پیدائش کے بعد مرنے کے بعد کی زندگی سے متعلق ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی جنّت دوزخ اور حشر و نشر سے متعلق ہے۔ قرآن کا دوسرا حصّہ جو علوم ظاہر کرتا ہے وہ تاریخ ہے کہ یہ دنیا کیسے بنی اور اس میں کتنے پیغمبر تشریف لائے۔ قوموں نے اچھے کام کئے تو اس کے کیا نتائج مرتّب ہوئے اور لوگ دنیا میں کس طرح رہے۔ آیا کہ انہوں نے حیوانوں کی طرح زندگی گزاری جیسے گائے، بیل، بکری وغیرہ یا انہوں نے حیوانات سے ہٹ کر اس زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ کی منشاء پر غور و فکر کیا اور اس غور و فکر کے نتیجے میں انہوں نے کیا ترقی کی۔ انہوں نے روحانی سائنسی علوم بھی حاصل کئے یا نہیں۔ سائنسی علوم میں تسخیر کائنات کے اصول ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہم آسمانوں میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں؟ وہ کونسے علوم ہیں جن علوم کی بنیاد پر ہم چاند، سورج، ستاروں اور زمین کے اندر موجود چیزوں کو اپنے طابع حکم کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (قرآن کریم کی آیات ہیں):
’’ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا تمہارے تابع کر دیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب‘‘
یہ ان علوم سے متعلق ہے جو انسانوں کو معلومات فراہم کرتا ہے کہ حیوانات سے ممتاز ہو کر کس طرح زندگی گزارنی چاہئے۔ آپ کا رہن سہن کیا ہو، آپ لباس کیسا پہنیں، آپ کا لین دین کیسا ہو، آپ جھوٹ نہ بولیں، سچ بولیں اپنے ہمسایوں سے محبت کریں، اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں وغیرہ وغیرہ۔ اسی کا نام شریعت ہے۔ قرآن پاک تین حصوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک حصّہ زندگی سے متعلق ہے۔ وہ زندگی پیدائش سے پہلے کی ہو یا مرنے کے بعد کی۔ دوسرا حصّہ تاریخ ، ان علوم کے اوپر ہے جن قوموں نے علوم حاصل کر کے ترقی کی ہے مثلاً یہ کہ آج کا دور سائنس کا دور ہے۔ اگر آپ پیچھے جائیں تو ہمارے اسلاف سارے کے سارے سائنٹسٹ تھے۔ انہوں نے گھڑی ایجاد کی، پانی کا جہاز مسلمانوں نے بنایا، زمین کی پیمائش مسلمانوں نے کی، دوربین مسلمانوں نے ایجاد کی وغیرہ وغیرہ۔ بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو مسلمانوں نے ایجاد کیں اور مسلمانوں کی ایجاد کو جب غیر مسلموں نے پڑھا، اس کو سمجھا، انہوں نے اس پر غور و فکر کیا نتیجہ میں مسلمان پیچھے رہ گیا اور وہ لوگ آگے بڑھ گئے۔
اس کا صاف مطلب ہے کہ قرآن ریسرچ کی بھی دعوت دیتا ہے اور دوسرے یہ کہ آپ تاریخوں سے عبرت بھی حاصل کر سکتے ہیں مثلاً یہ کہ حضرت نوح علیہ السّلام کا واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ حضرت لوط علیہ السّلام کا قصہ آپ کے سامنے ہے۔ عاد و ثمود کی قوموں کا قصہ آپ کے سامنے ہے کہ اللہ کا عذاب آیا۔ لوگ بندروں کی شکل بن گئے، جوئیں اور پھر مینڈک کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔ قرآن پاک آپ پڑھیں تو پوری تاریخ سامنے آ جاتی ہے۔ لوگوں نے جب اچھے کام کئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہُوا اور جب لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور پیغمبروں کی باتوں کو جھٹلایا تو ان کے اوپر سختیاں آئیں اور پریشانیاں آئیں اور نتیجہ میں عذاب میں گرفتار ہوئے۔
اس وضاحت سے یہ معنی نکلے کہ علم کوئی بھی ہو اس کو سیکھنا ہے۔ دین کا علم بھی سیکھنا ہے۔ دنیوی علوم بھی سیکھنے ہیں اور سائنسی علوم بھی سیکھنے ہیں مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ دین سے مراد یہ ہے کہ ہم فقہ کا علم سیکھ لیں۔ مسئلے مسائل حل کر لیں اور دنیا کا علم نہ سیکھیں یہ کہ موچی کا کام نہ سیکھیں، موچی کا کام بھی ایک علم ہے مثلاً یہ کہ لوہار کا کام نہ سیکھیں، لوہار کا کام بھی ایک علم ہے، بڑھئی کا کام نہ سیکھیں، یہ بھی ایک علم ہے تو اگر یہ سب علوم ہم نہیں سیکھیں گے تو نوعِ انسان کی زندگی پریشان کُن ہو جائے گی اور وہ آرام و آسائش کی زندگی سے نکل جائے گی۔ علم کوئی بھی ہو ہمیں سیکھنا ہے۔ علم کا سیکھنا ہماری ضرورت، ہمارا فرض ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد پر علم سیکھنا فرض ہے اور علم چاہے آپ کو چین میں ملے تو وہاں سے سیکھیں۔ ظاہر ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں لوگ فقہ اور شریعت کا علم سیکھنے کیلئے چین تو نہیں گئے ہوں گے۔ قرآن بھی نہیں سیکھنے گئے ہوں گے، حدیث بھی نہیں سیکھنے گئے ہونگے۔ چونکہ اس زمانے میں چین سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں چین نے کاغذ ایجاد کر لیا تھا۔ اُس زمانے میں چین نے روشنائی ایجاد کر لی تھی چونکہ چین ایک ترقی یافتہ ملک تھا۔ ساری دنیا میں علم کے لحاظ سے اس کی ایک ممتاز حیثیت تھی اس لئے حضورﷺ نے فرمایا:
’’اگر چین میں علم ملے تو وہاں جا کر سیکھو۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 125 تا 128
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔