عورت کو بھینٹ چڑھانا
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2550
ہندوستان کے اکثر صوبوں میں دستور تھا کہ عورتوں کو مندر کی پاسبانی کے لئے وقف کر دیا جاتا تھا۔ وہ بظاہر پاک دامن اور مقدس تھیں لیکن در پردہ پجاریوں، مہاتماؤں اور یاتریوں کا ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں تھا۔ مندر میں دیوتاؤں کے سامنے عورت کی قربانی کی جاتی تھی۔
جب کوئی شخص قرض دار ہو جاتا تھا تو قرض کی ادائیگی میں اپنی بیوی کو دے دیا کرتا تھا۔ اور جب رقم ادا ہو جاتی تھی تو عورت کو واپس لے آتا تھا۔ راجے مہاراجے جوئے میں اپنی بیویوں کو ہار جاتے تھے۔
(تاریخ ہند۔ مصنفہ۔پنڈت رادھا کرشن)
ہندوستان کے صوبوں میوات، راجپوت اور مارواڑ میں عورتوں کی حالت اتنی بری تھی کہ تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مارواڑ کے ایک خاندان میں چار بھائیوں کی ایک ہی بیوی تھی۔
ہندوؤں کے ایک بڑے بزرگ کا قول ہے کہ آگ کے شرارے اور زہریلا سانپ یقیناً انسان کے دشمن ہیں لیکن عورت ان سب سے بڑھ کر دشمن ہے۔ ایک سمجھد ار آدمی ہولناک سیلاب سے بچ سکتا ہے اور زہریلے سانپ کے کاٹے کا علاج کرا سکتا ہے لیکن عورت کی چالاکی اور عیاری سے بچنا محال ہے۔ عورت اس قابل نہیں کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اور اس کو راز دار بنایا جائے۔
ہندوستان میں بیوہ عورت دوسری شادی نہیں کر سکتی تھی۔ بچپن میں ہی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تھی۔ رخصتی سے قبل اگر شوہر مر جاتا تو لڑکی ساری عمر بیوہ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ بیوہ ہونا بدنصیبی کی علامت قرار دے دی گئی تھی۔ بستر پر اور چارپائی پر سونے کی اجازت نہیں تھی۔ کھانا بغیر نمک مرچ کا صرف “پانی کا شوربہ” ہوتا تھا۔ زیور اور رنگین کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا ممنوع تھا۔ عہد وسطیٰ میں بیوہ کے بالوں کو مونڈھ دیا جاتا تھا اور مرتے دم تک وہ سر پر استرا پھروانے پر مجبور تھی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 41 تا 41
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔