یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
علم مابعد النفسیات
مکمل کتاب : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=5473
علم مابعد النفسیات اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارے طرز بیان میں قدم قدم پر اتنی خامیاں ہیں کہ ہم جوش میں سب کچھ کہتے چلے جاتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں ۔ ہم کہا کرتے ہیں کہ ماضی کے نقوش ہیں۔ ہماری زمین کھربوں سال پرانی ہے اور کائنات کی عمر ممکن ہے سنکھوں سال سے بھی زیادہ ہو۔ ان الفاظ کے معانی کیا نکلتے ہیں اور ذراسمجھنے کی کوشش کیجئے۔
الفاظ کا مطلب بہت واضح ہے یعنی سنکھوں سال کا زمانہ منجمد ہوکر مکان (SPACE) کی صورت بن گیا۔جس کو ہم کائنات کہتے ہیں ۔ جب تک زمانہ منجمد نہیں ہوا تھا اس وقت تک نہ شاہد تھا نہ مشہود۔ یہ کہنے والا بھی نہیں تھا کہ یہ کائنات ہے۔ اور نہ کائنات تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کو نہ ہم چھو سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور نہ باہر لیکن زمان (TIME) یا لازمان کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔
سطور بالا سے یہ بات واشگاف ہوجاتی ہے کہ خواب ہویا بیداری دونوں حالتوں میں ہم زمان کا محض تذکرہ کرتے ہیں ۔ زمان حواس کی گرفت سے ماوراء ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ خواب کے حواس میں زمانیت کی طرح مکانیت نظر انداز نہیں ہوتی، محض شعوری اور لاشعوری تعین کی درجہ بندی ہے۔ شعور اگر زمان کی طرف متوجہ ہے یعنی شعور کا یقین یہ ہے کہ اب ایک لمحہ ، دوسرا لمحہ اور گھنٹے گزر رہے ہیں تو یہ تعین زمان کی گرفت سخت تر کردے گا۔ لیکن اگر شعور زمان کے گزرنے یا نہ گزرنے کی طر ف توجہ دے کر لمحے گھنٹے گزررہے ہیں تو یہ تعین زمان کے گزرنے یا نہ گزرنے کی طرف توجہ دے تو لمحے، گھنٹے ، دن اور ہفتے کی زمانیت ایک آن میں سمٹ جاتی ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ زمان کو رفتار کی بنا پر سمجھا جاتا ہے۔ فی الواقع ہم کسی بھی شئے کو اس وقت نہیں دیکھ سکتے ، نہ ہی چھوسکتے ، نہ ہی محسوس کرسکتے جب تک زمانیت منجمد نہ ہوجائے۔ زمانیت کے انجماد کی رفتار سے مکانیت بھی لپٹتی اور سمٹتی رہتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم پچاس سال کی عمر میں ایک ایسی بات یاد کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ چار یا پانچ سال پیچھے ماضی میں پہنچتی ہے۔ ہمارے اوپر اس واقعے کی پوری کیفیات مرتب ہوجاتی ہیں۔ لمحوں ،سیکنڈوں یا منٹوں کے لئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری عمر اس وقت پچاس سال ہے۔ اسی بات کو ہم نے زمانے کا منجمد ہونا کہا ہے۔
جہاں تک حواس کو جاننے اور سمجھنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ نوع انسانی کا شعور ابھی ایک انگوٹھا چوستے بچے کی حیثیت کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائے آفرنیش سے آج تک حواس کے بارے میں کوئی ایک رائے قائم ہی نہیں کی جاسکی ۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 113 تا 115
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔