عام آدمی اور مؤمن میں فرق
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13455
سوال: حدیث قدسی میں مؤمن کے بارے میں آیا ہے کہ میں مؤمن کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ چیزیں پکڑتا ہے۔ میں وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ میں وہ سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ میں وہ ذہن بن جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے کیا وہ ساری کی ساری ایک عام آدمی میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی سماعت، سوچ وغیرہ تو پھر ایک عام آدمی اور مؤمن میں کیا فرق ہے؟
جواب: یہ آپ نے بڑا عجیب سوال کیا ہے۔ اس میں اگر آپ تھوڑا غور کرتے ہیں تو یہ سوال دوسری طرح ہوتا۔ ان صاحب کا سوال یہ ہوا کہ میٹریکولیٹ اور P.h.Dمیں کیا فرق ہے۔ حالانکہ میٹرک کرنے والا بندہ بھی روٹی کھاتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، عقل کی باتیں کرتا ہے، کاروبار کرتا ہے، اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو پہچانتا ہے اور علم بھی رکھتا ہے لیکن ایک P.h.Dمیں ایک گریجویٹ اور میٹریکولیٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، ان سب میں علم کا فرق ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ ہو گا اسی مناسبت سے کسی بھی آدمی کا دماغ اور ذہن روشن ہو جائے گا۔ یہ تو عام دنیاداری کی بات ہے یہی ایک عام آدمی اور مؤمن میں فرق ہے۔ مؤمن کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ مؤمن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ عام آدمی میں اور مؤمن میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی نظر عطا ہو جاتی ہے کہ نور اس کے سامنے آ جاتا ہے اور وہ جو کچھ دیکھتا ہے ان انوار کی اور تجلّیات کی روشنی میں دیکھتا ہے۔
اب یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ بن جاتا ہے، کان بن جاتا ہے کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح ہمارے ہاتھ ہیں اللہ تعالیٰ کے بھی ہاتھ ہیں کہ جس طرح ہم ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اپنی انہی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یہ ہاتھ، کان، پیر یہ مخلوق کی بشری چیزیں ہیں۔ خالق ان سے ماوراء ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ مؤمن کوئی چیز سنتا ہے تو وہ میری معرفت سنتا ہے۔ اگر وہ کچھ دیکھتا ہے تو وہ میری معرفت دیکھتا ہے۔ اگر وہ کہیں جاتا ہے تو میری معرفت پیروں سے چل کر جاتا ہے یعنی اس کے ذہن میں میرے علاوہ کوئی تصوّر نہیں ہوتا۔ جو کام بھی کرتا ہے میری خوشنودی کے لئے کرتا ہے۔ کسی بات کو بیان کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے تو اب ہم یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ بن گیا، اللہ تعالیٰ پیر بن گیا تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کے بھی ہاتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بھی پیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بھی آنکھیں ہیں جو کہ نہیں ہیں۔ آنکھ، کان، ناک، ہاتھ، پیر یہ سب جو ہے، مخلوق کی صفات ہیں۔ تو اللہ آنکھ بن جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ ایسی بصیرت عطا کر دیتا ہے کہ وہ جب کچھ دیکھتا ہے تو اس دیکھنے میں اللہ تعالیٰ کی مشیئت اس کے سامنے ہوتی ہے اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتا کہ جس چیز کے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایسے راستے پر قدم نہیں بڑھاتا کہ جس راستے پر قدم بڑھانے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں۔ وہ کوئی ایسی چیز ہاتھ میں نہیں پکڑتا جس سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں مثلاً ایک آدمی سودی کاروبار کرتا ہے۔ اب سودی کاروبار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب رقم آئے گی تو آدمی ہاتھ سے ہی پکڑے گا۔ ایک آدمی شراب خانے کی طرف چلتا ہے ایک آدمی مسجد کی طرف چلتا ہے۔ وہ اگر شراب خانے کی طرف چل رہا ہے تو اللہ ناخوش ہے اور اگر وہی آدمی مسجد کی طرف چل رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ اب ایک آدمی شراب خانے سے مسجد کی طرف یا مکہ کی طرف یا مدینے کی طرف سفر کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا سارا چلنا اللہ تعالیٰ کا چلنا ہوا۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی خوشنودی کے لئے قدم اٹھا دیتا ہے۔ اسی طرح ذہن کی بات ہے جب وہ کچھ سوچتا ہے تو اس کی سوچ میں رحمانیت ہوتی ہے، شیطنت نہیں، تو اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بندہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاتھ بن جاتا ہے۔ انہی بندوں کے لئے ایک اور بھی حدیث ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ جب اللہ کے بھروسے پر کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو اللہ اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے اور وہ بات پوری کرتا ہے۔ یہ بھی انہی بندوں کی صفات ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت ان پر عمل کرتے ہیں اور جن باتوں سے اللہ ناخوش ہوتے ہیں ان کو اختیار نہیں کرتے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 156 تا 158
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔