طلاق کے مسا ئل
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2864
اللہ نے اس پوری کائنات کو دو رخوں میں تشکیل کیا ہے اور ان دونوں رخوں پر ظاہرو باطن کے ساتھ مذکر اور مونث رخ بھی بناۓ ہیں اور مذکر ار مونث رخوں کے ملاپ سے محبت، یگانگت اور باہمی الفت کے ذریعہ نسل کشی کا سلسلہ قائم ہے۔
ترجمہ:”شوہر اور زوج دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔”
ماں باپ دونوں کے اعتماد اور محبت و شفقت سے اولاد کی بہترین تربیت ہوجاتی ہے اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے بڑی برائ زن و شوہر میں جدائ ڈالنا ہے لیکن میاں بیوی کے مزاج میں کوشش کرنے کے باوجود ہم آہنگی نہ ہو تو با امر مجبوری دونوں علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں ۔علیحدہ ہونے کے لئے اللہ تعالٰی نے جو قانون بنایا ہے وہ رہنمائ کرتا ہے کہ اخر وقت تک کوشش کرتا ہے کہ گھر بنا رہے ٹوٹے نہیں علیحدگی یا طلاق دراصل دو خاندانوں میں افتراق ہے،اللہ کے اس ناپسندیدہ عمل سے بچوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بے سہارہ ہو جاتے ہیں ان کے اندر احساس محرومی پیدہ ہوجاتا ہے معاشرہ میں آگےبڑھنےاور قومی دھارے میں شریک ہونے کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے۔
قرآن حکیم میں طلاق کے سلسلہ میں بڑی وضاحت سے قانون بیان ہوا ہے۔
قرآن کریم میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۸میں ارشاد ہے:
“جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہے اسے چھپائیں، انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر تعلقات درست کرنے پر آمادہ ہوں تو اس عدت کے دوران انہیں اپنی زوجیت میں واپس لے سکتے ہیں۔”
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
“جن عورتوں کو ایک یا دو طلاقیں دی گئی ہیں وہ عدت تک یعنی تین حیض تک ٹہریں اس عرصہ میں کہیں اور نکاح نہیں کر سکتیں اگر حمل سے ہوں تو صاف بیان کر دیں چھپانا کسی طرح بھی جائز نہیں اگر خدا ار رسول پر ایمان لائی ہیں تو بالکل نہ چھپائیں عدت کے اندر یعنی تین حیضوں یا حمل کے اندر ان کے خاوندوں کو طلاق واپس لینے کا پورا حق حاصل ہے اگر اصلاح اور محبت کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر نقصان دینا مقصود ہے کہ طلاق واپس لے کر عورت کو ضرر پہنچایا جاۓ تو یہ فعل حرام ہے ، طلاق واپس لینا دو ہی طلاقوں میں ہے ابتداۓ اسلام میں یہ تھا کہ طلاق دینے والا اگر ہزار طلاقیں بھی دے تب بھی واپس کر سکتا تھا جب یہ آیت اتری تو ایک یا دو طلاق واپس ہو سکتی ہے(یا رجوع کر سکتا ہے)تیسری کے بعد واپس نہیں ہو سکتی۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
“والمطلٰقات” یعنی “مطلقہ خواتین “اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبدالقادر دہلویؒ ، اعلٰی حظرت احمد رضا خان بریلویؒ،مولانہ اشرف تھانویؒ،اور مولانہ ابو الا علی مودودیؒ کی تفسیر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں مطلقہ ایسی خواتین کو کہا گیا ہے جس کو ایک یا دو طلاق دی جا چکی ہو۔شرعی لحاظ سے پہلے طلاق کو رجعی،دوسری کو بائن (اس میں بھی زجین کو رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے)اور تیسری مغلظ کہلاتی ہے جس کے بعد زوجین میں تعلق ختم ہوجاتا ہے۔
مندرجہ بالا آیت کے حوالے سے قرآن کریم کے طریقہ تخاطب کے مطابق طلاق دینے والے کےلئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ پہلے طلاق رجعی دے پھر طلاق بائن ، اس کے بعد بھی اختلاف ختم نہ ہو تو طلاق مغلظ دی جاۓ۔ اللہ تعالٰی کی مقرر کر دہ یہ ترتیب سورۃ بقرہ میں بیان ہوئی ہے۔
ترجمہ؛”اور جب جب تم اورعورتوں کو طلاق دےدو ان کی عدت پوری ہوجاۓ یا بھلے طریقہ سے ان کو روک لو یا بھلے طریقہ سے ان کو رخصت کردو محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھو یہ زیادتی ہوگی جو ایسا کریگا وہ درحقیقت خود پر ہی ظلم کرے گا، اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ بھول نہ جاؤ کے اللہ نے کسی نعمت عظمٰی سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے اس کا احترام ملحوظ رکھو، تقٰوی اختیار کرو خوب جان لو کہ اللہ کو ہر شے کا علم ہے۔”
(سورۃ بقرہ: ۲۳۱)
یہاں بھی وہی ترتیب ہے یعنی طلاق اصل میں وہی ہے جو مرحلہ وار دی جاۓ ان مراحل کے درمیان عدت کا وقفہ ہے جس میں فریقین کو سوچنے کا موقع مل جاتا ہے تا کہ بہتر فیصلہ کر سکیں۔
ترجمہ:”طلاق دوبار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جاۓ یا بھلے طریقہ سے اس کو رخصت کر دیا جاۓ۔”
(سورۃ بقرہ: ۲۳۹)
یہی ترتیب اور مراحل سورہ الطلاق کی ابتدائ آیات میں ملاحظہ فرمائے۔
ترجمہ: اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت (یعنی ایک وقفہ)کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت( یعنی اس وقفہ)کے زمانے کا ٹھیک ٹھاک شمار کرو اور اللہ کا تقوٰی اختیار کرو جو تمہارہ رب ہے نہ تم انہیں (بیویوں کو ) ان کے گھر سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں اٖلّایہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مراتب ہوں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی مقرر کردہ حدوں سے تجاویز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرےگا ۔ تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی)کوئی صورت پیدا کر دے پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو انہیں بھلے طریقہ سے روک لیں یا بھلے طریقہ سے ان سے جدا ہو جاؤ اوردو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں اور (اے گواہ بننے والو)گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو۔یہ باتیں ہیں جن کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے ہر اس شخص پر جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جو کوئی اللہ کے لیے تقوٰی اختیار کرے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے۔”
(سورۃالطلاق)
قرآن کریم میں تیسری اور حتمی طلاق کا بیان اس طرح ہے:
ترجمہ:”پھر(تیسری دفعہ)طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی اٖلّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دےتب اگر پہلا شوہر اورعورت یہ خیال کریں کہ حدودالہٰی پر قائم رہیں گے تو ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جنہیں وہ لوگوں کی ہدایات کے لیے واضح کر رہا ہے جو علم والے ہیں ۔”
طلاق واقع ہونےکے لیے اللہ کی طرف سے جو ہدایات دی گئ ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
١۔ طلاق تین وقفوں کے درمیان دی جاۓ،قران کریم میں کسی بھی جگہ بیان نہیں ہوا کہ ایک نشست میں دی جانے والی طلاقوں کو تین طلاقوں میں تسلیم کیا جاۓ، ایک نشست کی تین یا تین سے زیادہ طلاقیں ایک شمار کی جائیں گی،قرآن کریم تشریح کرتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں صلح کی کوئی صورت نہ نکل رہی ہو توطلاق رجعی دےکر دونوں ایک ہی گھر میں الگ ہو جائیں اس علیحدگی کو قرآن میں “عدت”کہا گیا ہے۔
٢۔ عدت ایک ایسی حکمت عملی ہے جو میاں بیوی کو سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیتیں انسانی شعور کوایک طرف متوجہ کرتی ہیں کہ اللہ تعالٰی زوجین کو ٹھنڈے دل سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور ایک دوسرے کے برتاؤ پر غور کرنے کا موقع فرہم کرتے ہیں۔
٣۔ سورۃالطلاق کی پہلی آیت سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ طلاق رجعی کے بعد فریقین میں مفاہمت ہو یا علیحدگی دونوں صورتوں میں دو گواہ بنا لیے جائیں یہ حکم بتاتا ہے کہ نکاح کی طرح طلاق کے معاملہ میں بھی گواہی ضروری ہے تنہائی میں کہہ دینا یا کاغذ پر لکھ دینے سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔
٤۔ سورۃبقرہ کی آیت ٢٣٠کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق رجعی کے بعد ایک وقفہ (عدت کے بعد دونوں بھلے طریقہ سے رہنے لگیں یا پھر علیحدگی اختیار کر لیں ۔ مردوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس معاملے میں عورتوں ستا ئیں اور زیادتی کریں جو شخص بھی ایسا کرتا ہے ، طلاق کی قرآنی حکمت اور ترتیب کو بالاۓطاق رکھ دیتا ہے اسے اللہ تعالٰی آیات کا کھیل تماشہ بنا دینے سے تشبیہہ دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کو خوفناک عذاب کی خبر دیتے ہیں ۔
٥۔ جن خواتین کو طلاق مغلظ (تیسری طلاق)دے دی جاۓ وہ اس شوہرکے نکاح سے نکل گئی اب اس کا کوئی اختیار اور تعلق خاتون سے باقی نہ رہا ۔ اب وہ خاتون کسی دوسرے سے نکاح کر کے گھر بسائیں بالفرض محال اگر دوسرے شوہر کا انتقال ہو جاۓ یا وہ بھی بیان کردہ قرآن کی ترتیب کے مطابق طلاق دےدے تو خاتون اپنے پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے ورنہ نہیں ۔ اس سخت حکم کی توجیہہ یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی اپنے ذہنوں میں یہ باور کرلیں کہ طلاق مغلظ واقع ہونے کے بعد موافقت کا دروازہ بند ہو جاۓگااس لیے پہلے اچھی طرح غور کرلیں۔
حضرت کبیر ابن جریر فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں مرد جتنی بار چاہتا تھا اپنی بیوی کو طلاق دیدیتا تھا اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں تھی اور ہر بار عدت گزرنے سے پہلے رجوع کر سکتا تھا۔
اس آیت کے ذریعے اللہ تعالٰی نے عورت کو تحفظ عطا فرمایا ہے کہ تین دفعہ طلاق دینے کے بعد وہ دوسرے شخص کے ساتھ شادی کر کے گھر بساۓ تا کہ عورت کی عزت نفس مجروع نہ ہو۔
تقریبا تمام مسالک کے علماۓکرام اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا حضورﷺ کے دور اقدس میں ایک ہی نشست میں دی گئی تین یا اس سے زائد طلاقوں کو ایک ہی تصور کیا جاتا ہے،سنن ابی داؤد اور مسند احمد کی مشہور حدیث ہے جسے تمام مسلک مستند قرار دیتے ہیں۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ دور نبوی میں ابورکانہؓ نے اپنی بیوی ام رکانہ کو طلاق دے کر قبیلہ مزینہ کی ایک عرت سے نکاح کرلیا پس آپﷺ نے ابورکانہؓ سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی بیوی ام رکانہ سے رجوع کرلو اس پر انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺمیں تو اسے تین طلاقیں دے چکا ہوں ۔ آپﷺ نے فرمایا قد علمت راجعھا”مجھے معلوم ہے تم رجوع کرلو”پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔
ترجمہ:”اے نبی جب تم اپنی بیوی کو طلاق دو تو ان کی عدت میں (یعنی توقف سے)دو۔”
ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ دور نبوی میں ایک ہی نشست کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں؟حضرت ابن عباس نے جواب دیا کہ حضور نبیﷺ کے زمانے میں حضرت ابو بکر ؓ کی خلافت میں اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے تین سال تک یہی دستور رہا۔
حضرت عباس سے ابن ابوالجوزاء نے دریافت کیا “آپ کو علم ہے کہ ایسی تین طلاقیں حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک ہی کی طرف لوٹا دی جاتی تھی؟ ( یعنی تینوں کو ایک ہی طلاق تصور کیا جاتا تھا؟)”
آپ ؓ نے فرمایا:”ہاں مجھے معلوم ہے۔” (بحوالہ الحاکم فی المستدررکہ)
امام محمد بن مقاتل فقہ حنفی کے پیشواؤں میں سے ہیں ،مازری نے ان کے حوالہ سے کتاب معلم میں بیان کیا ہے”امام ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد کا قول بھی یہی ہے۔”
ان کی یہ عبارت تمجید کے حاشیہء بیضاوی پر اس طرح تحریر ہے۔
ترجمہ:”دو یا تین طلاقیں ایک ساتھ دینا بدعت ہے،خلاف شرع ہے ، حرام ہے، ممنوع ہے باوجود اس کے بھی جب کوئی ایسا کرے کہ دو یا تین طلاقیں ایک ساتھ دیدے اور کہہ دے کہ طلاق طلاق طلاق تو بھی ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوگی۔”
الطلاق مرتان کی تفسیر میں قاضی ثناءاللہ پانی پتی لکھتے ہیں :
“اس آیت میں تشان کا لفظ نہیں بلکہ مرتان کا لفظ ہے اس سے تفریق تو لفظ سے معلوم ہوئی اور عدد اشارہ سے اور الطلاق پر الف لام جنس کے لیے ہے تو اس سے خارج کوئی چیز نہیں ،پس اس سے صاف عیاں ہے کہ جو دو طلاقیں جو ایک ساتھ جمع کر دی جائیں وہ غیر معتبر ہیں جب دو کا شرعاً اعتبار نہیں تو تین جو ایک ساتھ دی جائیں ظاہر ہے کہ وہ بھی شرعاً معتبر نہیں ہیں کیونکہ تین بھی دو میں شامل ہیں بلکہ اس کے بھی ہیں۔”
حلالہ کے بارے میں سیدنا حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
“طلاق بائن واقع ہونے سے پہلے حلالہ کا کوئی جواز نہیں ہے”
حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا :
“حلالہ کرنے والا اور جس شخص جس کے لیے حلالہ کیا گیا ہو دونوں کو رجم(سنگسار)کردونگا۔”
حضرت ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ حلالہ سے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟
آپ نے جواب دیا :
“جو شخص خدا کے ساتھ دھوکہ بازی کرےگا اللہ اس کو دھوکے کے وبال میں پکڑ لے گا۔”
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
“نہیں یہ نکاح جا ئز نہیں ، وہ نکاح جائز ہےجو دل کی رغبت سے ہو اس کے بعد اچھی طرح سے عورت کو بسانا اور اگر برائی اور بے دلی پیدا ہو جاۓ تو الگ کر دنا سو ہم اس طرح کے نکاح کو آن حضرت ﷺ کے زمانے میں زنا میں شمار کرتے تھے۔”
امام جو زجانی کی کتاب التراجم اور ابن المنذر کی کتاب الاوسط میں ہے کہ خلیفہ سوئم حضرت عثمانؓ کے پاس ایک شخص نے آکر کہا میرے پڑوسی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اب وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس عورت سے نکاح کرلوں پھر اس سے مل کر اسے طلاق دے دوں تا کہ وہ اس کے لیے حلال ہو جاۓ آپ نے فرمایا:
“ایسا ہر گز مت کرنا نکاح وہ ہوتا جس میں باہمی رغبت شامل ہو۔”
مشہور تابعی حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں :
” نکاح کرنے والا یا کرانے والا جو کوئی بھی حلالہ کی نیت رکھتا ہے تو یہ نکاح درست نہ ہوگا۔”
یہ بات پوری طرح واضح ہونی چاہئے کہ جب ایک نشست میں طلاق نہیں دی جا سکتی تو کس طرح طلاق واقع ہوگی؟
اللہ تعالٰی اس قانون کے بارے میں فرماتے ہیں:
ترجمہ:”جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ تین مرتبہ حیض تک اپنے آپ کو روکیں رکھیں اور ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کہ رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہوا سے چھپائیں ، انہیں ہر گز ایسا نہیں کرنا چاہئے اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں ، ان کے شوہر تعلقات درست کرلینے پر آمادہ ہوں تو وہ اس کی عدت کے دوران انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے حقدار ہیں۔”
(سورۃبقرۃ۲۲۸)
حضرت ابن عباس ؓ ،مولانا اشرف علی تھانویؒ،پیر کرم شاہ الازریؒ،مولانا ابوالا علی مودودیؒ،مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور مشہور علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں طلاق سے مراد وہ طلاق ہے جس میں رجوع کی گنجائش ہے اس طرح آیت مذکورہ اور علمائے کرام کی تفاسیر سے یہ ثابت ہوا کہ ایک طلاق کے بعد عدت تین حیض اندازہ تین ماہ ہے یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے تو عورت اسی گھر میں رہتے ہوئے تین ماہ تک عدت کے دن پورے کرے گی ان تین ماہ کے دوران اگر دونوں میں موافقت نا ہو تو خاندان والوں کو بلایا جائے وہ دونوں فریقین کو سمجھا ئیں گےاگر پھر بھی مفاہمت نا ہو تو مرد ایک طلاق اور دےگا اور عورت تین ماہ کی عدت دوبارہ شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے پوری کرے گی ،جب یہ عرصہ بھی گزر جائے گا تو خاندان والے دوبارہ جمع ہونگے اگر مفاہمت ہو جائے تو تجدید نکاح کرینگے بصورت دیگر شوہر گواہوں کے سامنے تیسری طلاق دے گا اور عورت اس سے علیحدہ ہوکر عدت پوری کرے گی، اس طرح طلاق کا پورا دورانیہ تقریبا نو ماہ بنتا ہے جن میں چھ ماہ وہ ہیں جن میں زوجین رجوع کر سکتے ہیں۔
پورے دورانیہ کا نفسیاتی تجزیہ کریں کہ طلاق کی کتنی کڑی شرائط لگائی گئی ہیں مثلا طلاق صرف حالت طہر میں دی جائے ، حالت حیض میں نہیں ، ایک ہی نشست میں ایک بار طلاق دے کر تین ماہ تک انتظار کیا جائے اس دوران رجوع کرنا چاہیں تو کوئی پابندی نہیں ۔
طلاق کی ان تمام شرائط سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالٰی طلاق کو نا پسند کرتے ہیں۔سیدنا حضورﷺ نے فرمایا:
“حلال چیزوں میں اللہ تعالٰی کو سب سے نا پسند چیز طلاق ہے۔”
طلاق کا خیال عموما غصہ کی حالت میں آتا ہےاورغصہ میں مبتلا شخص کو اتنا وقت ضرور دینا چاہئے کہ وہ عقل و شعور کے ساتھ فیصلہ کر سکے۔
اسلام دین فطرت ہے اسلام نے فریقین کو یہ موقع دیا ہے کہ عدت کی صورت میں ایک ساتھ رہیں اس عمل سے اسّی (٨٠) فیصد امکان ہے کہ دونوں فریقین طلاق کے فیصلہ پر نظر ثانی کریں ،غصہ ختم ہونے پر فریقین کو معصوم بچے بھی یاد آتے رہتے ہیں،خانماں برباد گھر انے کا تصور بھی آتا ہے،اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا آدمی موازنہ بھی کرتا ہے اور دو خاندانوںکی تباہی کا خیال بھی دامن گیر ہوتا ہے۔ دوست احباب اور خاندان کے بڑے بزرگ بھی سمجھاتے ہیں جس کے نتیجے میں آدمی صحیح فیصلہ کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور یوں بچے کسمپرسی کے حال سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
قرآن کریم میں عدت پر بہت زور دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق بتدریج دی جائے۔
ترجمہ:”اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھاک شمار کرو۔”
(سورۃالطلاق)
عدت کے زمانے کا شمار کرنا مطلق حکم یعنی تینوں طلاقوں کے درمیان وقفہ ضروری ہے۔
قرآن کریم کے بیان کردہ طریقہ سے زوجین میں ہونا ہی مشکل ہے کیونکہ چند ہی روز میں ان کا غصہ ختم ہوگا تو وہ خود ہی اس مذموم جذبہ کے برے اثرات سے آگاہ ہو جا ئیں گے۔
اللہ تعالٰی اپنی مخلوق سے محبت سےکرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے میاں بیوی کو ہم لباس قرار دیا ہے،اللہ تعالٰی معصوم بچوں سے پیار کرتے ہیں،اللہ نے ان کی حفاظت کے لئے فرشتے مقرر کئے ہیں ، ماں کے سینے کو دودھ سے بھر دیتے ہیں،باپ کے دل کو شفقت سے معمور کرتے ہیں، اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ گھر برباد ہو۔
یہ بات الگ ہے کہ جب کسی بھی طرح نبھا نہ ہو اور موافقت کی صورت نہ نکلے تو الگ ہونا مجبوری ہےاللہ تعالٰی ستارالعیوب ہیں،غفارالذنوب ہیں اپنے بندوں کے عیب چھپاتے ہیں ،گناہوں کو معاف کرتے ہیں ۔ میاں بیوی کو سوچنے سمجھنے کا قت ملے گاتو وہ ایک دوسرے کو معاف کر دیں گے جس کا قصور ہو گا وہ معافی مانگ لے گا اور نونہالوں کے چمن پر خزاں نہیں آئے گی۔
میں نے ایک مرتبہ مرشد کریم حضور قلندر بابا الیاءؒسے پوچھا:
“اللہ کے نزدیک سب سے برا فعل کون سا ہے؟”
میرا خیال کہ فرمائیں گے قتل سب سے برا فعل ہے لیکن توقع کے بر خلاف انہوں نے فرمایا”طلاق” نوع انسانی کے فعال میں سب سے برا فعال یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بے سہارا کر دیا جائے جب کہ حوا کو آدم کے لئے اور آدم کو حوا کے لئے تخلیق کیا گیا ہے تا کہ زمین اللہ کی مخلوق سے آباد رہے۔
اسلامی ممالک میں ایک نشست میں تین طلاقوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے اسلامی ملک مصر کی حکومت نے ١٩٢٩میں سرکاری طور پر ایک قانون شق٢٥ جاری کر دیا جس کے الفاظ یہ ہیں:
“لفظی یا اشارہ کے ذریعےمتعدد دفعہ دی گئی طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جائے گا۔”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 323 تا 336
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔