یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

شب قدر میں اللہ کی تجلی کا دیدار کریں

مکمل کتاب : کتابچہ جات

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=23117

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ

ماہِ رمضان جس میں نازل ہوا قرآن جس میں ہدایت ہے، لوگوں کے واسطے اور راہ پانے کی کھلی نشانیاں ہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۵)

 

آیتِ مقدسہ ہمیں اس تفکر کی دعوت دیتی ہے کہ نزولِ قرآن میں رمضان کا تذکرہ کیوں کیا گیا ہے جبکہ وحی رمضان کے علاوہ بھی نازل ہوتی رہی ہے۔ یہ تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک اور عام دنوں میں کیا فرق ہے اور رمضان میں انسانی تصورات اور احساسات میں کیا تبدیلی رونما ہوجاتی ہے؟

 

رمضان المبارک سے متعلق اس رکوع میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ترجمہ: ’’ اور جب تجھ سے پوچھیں بندے میرے مجھ کو تو میں نزدیک ہوں‘ پہنچتا ہوں پکارتے کی پکار کو جس وقت مجھ کو پکارتا ہے۔ ‘‘

آیتِ کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ بندے اور اللہ کے درمیان کسی قسم کا کوئی فاصلہ حائل نہیں ہے۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق کائنات میں ہر شئے دو رخ پر قائم ہے۔

 

وَمِنْ کُلِّ شَئٍ خَلَقْنَا زَوجَینِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونْ

’’ اور ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے شاید تم دھیان کرو۔‘‘

انسانی حواس کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے آپ کو پابند اور مقید محسوس کرتا ہے اور دوسرا رخ وہ ہے کہ جہاں انسان قید و بند سے آزاد ہے۔ قید و بند میں ہمارے اندر جو حواس کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسفل زندگی کی طرف متوجہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان حواس کی ہر حرکت ہماری زندگی کو کڑی در کڑی زنجیر کی طرح پابندِ سلاسل کئے ہوئے ہے۔ زندگی نام ہے تقاضوں کا، یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتے ہیں۔ بھوک، پیاس، جنس، ذہنی تعیش، ایک دوسرے سے بات کرنے کی خواہش، آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دلچسپیاں یہ سب تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کا دارومدار حواس پر ہے۔ حواس اگر تقاضے قبول کرلیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس کے اندر جذب ہوکر ہمیں مظاہراتی خدوخال کا علم بخشتے ہیں۔ عام دنوں میں ہماری دلچسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، آرام کرنا، حصولِ معاش میں جدوجہد کرنا اور دنیاوی دوسرے مشاغل سب کے سب مظاہر ہیں۔

عام دنوں کے برعکس روزہ ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہے۔ مثلاً وقتِ معینہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا ( غیب کی دنیا ) سے روشناس کرتے ہیں۔ روزہ زندگی میں کام کرنے والے ظاہری حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کردیتا ہے۔ بھوک پیاس پر کنٹرول، گفتگو میں احتیاط، نیند میں کمی اور چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا جائے۔

سید ناعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’روزے کی جزا میں ہوں‘‘

یعنی روزے دار کے اندر وہ حواس کام کر نے لگتے ہیں۔ جن حواس سے انسان اللہ تعالی کی تجلی کا دیدار حاصل کر لیتا ہے۔

کائنات میں ہر ذی روح کے اندر دوحواس کام کرتے ہیں۔

ا۔ وہ حواس جواللہ تعالی سے قریب کر تے ہیں۔
۲۔ وہ حواس جواللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔

اللہ تعالی سے دور کر نے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ تعالی سے قریب کر نے والےحواس سب کے سب غیب ہیں۔مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید ہے اور غیب میں زمانیت اور مکا نیت انسان کی پا بند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کر واتے ہیں قرآن پاک کی زبان میں اس کا نام’’لیل‘‘ لینی رات ہے ارشاد باری تعالی ہے:

’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں ‘‘ (۳۵ ۱۳۰)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

”ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو (۳۶ :۳۷)
یعنی حواس ایک ہی ہیں۔ان میں صرف درجہ بندی ہوتی ہے۔ دن کے حواس میں زمان اور مکان کی پابندی ہے لیکن رات کے حواس میں زمانیت اور مکانیت کی پابندی نہیں ہے۔ رات کے یہی حواس غیب میں سفر کر نے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس سے انسان برزخ ، اعراف ، ملائکہ اور ملا ءاعلی کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ حضرت موسی کے تذکرے میں اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں:

’’اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا اور پورا کیا ان کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس (۴۰) رات ‘‘ (۷ : ۱۴۲)

اللہ تعالی فرما رہے ہیں ہم نے حضرت موسٰیؑ کو چالیس رات میں تو رات (غیبی انکشافات ) عطافرمائی۔فرمان خداوندی بہت زیادہ غوراورفکر طلب ہے۔اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ پورا کیا صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ظاہر ہے جب حضرت موسٰیؑ نے چالیس دن اور چالیس رات کو ہ طور پر قیام فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا چالیس دن چالیس رات حضرت موسٰیؑ پر رات کے حواس غالب رہے۔

سید نا حضور ﷺ کی معراج کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کورات ہی رات ادب والی مسجد (مسجد الحرام )سے پر لی مسجد (مسجدالاقصی ) تک جس میں ہم نے خو بیاں رکھی ہیں کہ دکھاو یں اس کو اپنی قدرت کے نمونے وہی ہے سنتا دیکھتا۔‘‘ (۱۷ : ۱)

رات کے حواس ( سونے کی حالت )میں ہم نہ کھاتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ارادۃً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔ روزے کا پروگرام ہمیں یہ عمل اختیار کر نے کا حکم دیتا ہے، روزے میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔
گفتگو میں احتیاط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنابات نہ کرنے کے عمل سے قریب کرتا ہے۔ ذہن کا اس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام ہم صرف اللہ کے لئے کر رہے ہیں ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹا تا ہے۔ زیادہ وقت بیدار رہ کر رات ( غیب ) کے حواس سے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے حضرت موسٰیؑ کے واقعہ میں کیا ہے۔ رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہو جاۓ۔ اللہ تعالی نے ہمیں دو پروگرام عطا کئے ہیں۔

ایک حصول اور دوسرا ترک۔

حصول کا پروگرام تو معاشیات کے اصول بتا تا ہے۔

لیکن ترک کا پروگرام اس سے بہت بڑا ہے اور وہ ایسے اصول سکھا تا ہے جو مظاہر سے آہستہ آہستہ دور لے جاتے ہیں۔ اگرچہ انسان مظاہر میں پھنسا رہتا ہے لیکن اس کی روح آہستہ آہستہ اللہ سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ پروگرام بندے کو اللہ سے اتنا قریب کر دیتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
”میں تمہارے رگ جان سے زیادہ قریب ہوں ) ‘‘۵۰ : ۱۲ (

روزے جو دراصل عمومی زندگی کی خواہشات کا ترک ہیں حواس کو جلا دیتے ہیں اور حواس کو ایک نقطے پر مجتمع کرتے ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ حواس پانچ ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ حواس بہت زیادہ میں پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پردہ میں اور بہت سے حواس ہیں جو ترک سے منکشف ہوتے ہیں۔ ظاہری حواس اور ظاہری اعمال و خواہشات کا ترک انسان کو خود سے قریب کر دیتا ہے۔ جب آپ انتہائی ترک پر ہوتے ہیں یعنی کم بولتے ہیں ، کم سوتے ہیں ، کم کھاتے ہیں ،کم سوچتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو کم سوچنے سے آپ کی فکر کا مجلا ہونالازمی ہے۔ ایک روشنی آپ کے دماغ میں دل اور سینہ میں پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ روشنی اس روشنی سے الگ ہے جو ظاہری حواس میں کام کرتی ہے۔ یہ روشنی آپ کی فکر میں رہنمائی کرتی ہے۔ باطنی حواس کو پردہ سے باہر لے آتی ہے اور ان میں تیزی پیدا کرتی ہے۔ یہی روشنی ہے جس کے ذریعہ آپ بہت سی باتیں جومستقبل میں ہونے والی میں دیکھ لیتے ہیں۔ کانوں سے سن لیتے ہیں اور دماغ سے ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے غلبہ حاصل کر لیتے ہیں۔

حدیث قدسی میں ارشاد ہے:
روزہ میرے لئے ہے روزے کی جزا میں خود ہوں

دراصل روزہ ہی ہمارے ہاں وہ نظام ہے جو ترک سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارتے ہیں۔اس وقت آپ کا روبار کو بھی ترک کر دیتے ہیں۔ معاش بھی آپ کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ صرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے صاف ستھری زندگی ،صحیح نظام الاوقات کی حدود میں گزارتے ہیں تو وہاں اللہ خود آپ کی راہنمائی کرتا ہے۔ اللہ خود آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔اللہ خود آپ کے اندر کام کرتا ہے۔اللہ خود آپ کے اندر دیکھتا سنتا اور بولتا ہے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگائیے آپ کی ہستی اس وقت کیا ہوتی ہے اور آپ اللہ سے کتنے قریب ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ صحیح ترک یعنی روزہ کی حالت میں آپ کی ہر تحر یک اللہ کی تحریک پر مبنی ہوتی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اسی حالت کے لئے یہ شعر کہا ہے۔
گفته او گفته الله بود!
گر چه از حلقوم عبدالله بود!

آپ اس کو پڑھ کر ذرا اس کی گہرائی میں جائیں اور غور کر یں بار بارغور کر یں سوچیں اور بار بار سوچیں کہ یہ شعر کہتے وقت مولا نا رومی پر کس قسم کی کیفیت طاری تھی۔ ایسی کیفیت محض لفظوں کے الٹ پھیر سے نہیں ہوتی بلکہ ایک حقیقت ہے جو اس قسم کے شعر کہلا دیتی ہے۔ ترک کی گہرائی پر غور کر یں کہ انسان خالصاً للہ ، اللہ کے لئے چند پیسے خرچ کر کے کتنی بڑی خوشی حاصل کرتا ہے۔ وہ خوشی اس کی روح کے اندر سما جاتی ہے یہ خوشی اس کے کونے کونے کو منور کر دیتی ہے اس خوشی سے اس کی روح اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو بھول جا تا ہے۔ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ اس قسم کے پروگرام جس سے غیب کا انکشاف ہوصرف خاص حضرات کے لئے مخصوص ہیں اگر اس قسم کے پروگرام مخصوص لوگوں کے لئے ہوتے ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ مولا نارومی کی بیوی تھیں، بچے تھے وہ حد یث کا درس بھی دیتے تھے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کپڑے نہیں پہنتے تھے ، وہ مجذوب تھے یا ہوش میں نہیں تھے۔ ایسا نہیں ہے وہ اسی طرح زندگی گزارتے تھے جس طرح ایک عام آدمی زندگی بسر کرتا ہے فرق یہ ہے کہ وہ ترک کی لذت سے آشنا تھے اور ہم ترک کی لذت سے آشنا نہیں ہیں۔ کیا حضورﷺکے ہر امتی کے لئے ممکن نہیں ہے جومولا نا رومی کے لئے ممکن ہوا۔ یقینا ہم سب کے لئے ترک ممکن ہے لیکن ہم غفلت میں ہیں۔

قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلتہ القدر رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔اس لئے اللہ نے فرمایا روزہ میرے لئے ہے۔ روزے کی جزا میں خود ہوں۔

رمضان المبارک کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے۔ اس بات سے متعلق کہ انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:

’’ ہم نے اتارا شب قدر میں۔ اور تو کیا بوجھا کیا ہے شب قدر۔ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے، ہرکام پر۔ امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔‘‘ سورۃ القدر

اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق لیلۃالقدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ رات کے حواس کی رفتار اس رات میں ( جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے ) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔

 

رمضان المبارک کے آخری دو (۲) عشروں کا پروگرام

رمضان کی دس تاریخ تک ہمیں اس بات کی عادت ہو جاتی ہے کہ ہم ان حواس کی گرفت کو توڑ سکیں جو گیارہ مہینے ہمارے اوپر مسلط رہے ہیں۔ رمضان کے پہلے عشرے میں بھوک، پیاس، نیند، گفتگو میں احتیاط اور قرآن پاک کی تلاوت سے کافی حد تک ظاہری حواس ہماری گرفت میں آجاتے ہیں۔ محض اللہ کی خوشنودی کیلئے پورے دن کھانا نہ کھانا، شدید تقاضے کے باوجود پانی نہ پینے اور افطار و سحری کے درمیان چند گھنٹے سونے سے ہمارے اندر ایک ایسی طاقت پیدا ہوجاتی ہے جو ہمیں رات کے حواس اور روح کے قریب کردیتی ہے۔ دس (۱۰) روزے رکھنے کے بعد اگر ہم کوشش کریں تو بہت آسانی کے ساتھ روح کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرسکتے ہیں۔

 

گیارھواں (۱۱ ) روزہ

دسویں روزے کے بعد چوبیس گھنٹے میں چھ گھنٹے سے زیادہ نہ سوئیں۔

 

بارھواں ( ۱۲ ) روزہ

بارھویں، تیرھویں اور چودھویں روزوں میں نیند کا وقفہ بجائے چھ (۶) کے پانچ (۵) گھنٹے کردیں۔ کھانے میں یہ احتیاط کریں کہ سحر و افطار میں اتنا کھائیں کہ جو معدہ کے لئے گرانی کا باعث نہ بنے۔

 

پندرھواں (۱۵ ) روزہ

پندرھویں روزہ میں سحر و افطار میں کھانا بھوک رکھ کر کھائیں اور کھانوں میں زیادہ مرغن اور ثقیل چیزیں استعمال نہ کریں۔ نیند کا وقفہ کم کرکے ساڑھے چار گھنٹے کردیں۔

 

سولھواں (۱۶ ) روزہ

سولہویں روزے میں سحری نہ کھائیں صرف دودھ یا چائے پئیں۔ افطار ایک یا دو کھجور اور دودھ سے کریں۔ پھلوں کا رس پی لیں لیکن ٹھوس غذا نہ کھائیں۔ تراویح کے بعد سحرے تک درودِ خضری پڑھتے رہیں۔

 

سترھواں (۱۷ ) روزہ

ہلکی سحری کھاکر فجر کی نماز باجماعت ادا کرکے ساڑھے چار گھنٹے کے لئے سوجائیں۔ دن بھر کام میں مشغول رہیں اور یَاحَیُّ یَاقَیّومْ کا ورد کرتے رہیں۔ افطار میں صرف پھلوں کا رس اور دودھ پئیں۔ ٹھوس غذا بالکل استعمال نہ کریں۔ تراویح پڑھنے کے بعد درود خضری پڑھتے پڑھتے سوجائیں اور سحری کے وقفہ تک سوتے رہیں۔

 

اٹھارواں (۱۸ ) روزہ

سحری میں ہلکی اور زود ہضم غذا مثلاً دلیہ، توس، سوجی کا ہریرہ وغیرہ استعمال کریں اور پورے دن کاروبار میں مشغول رہتے ہوئے یَاحَیُّ یَاقَیّومْ کا ورد کرتے رہیں۔ افطار میں آدھا پیٹ روٹی کھائیں پانی یا شربت کم پئیں اور تراویح پڑھتے ہی سوجائیں۔

 

انیسواں ( ۱۹ ) روزہ

۱۹ رمضان کو سحر میں اتنی غذا استعمال کی جائے جو طبیعت میں کسی قسم کا تکدّر پیدا نہ کرے اور افطار میں چند کھجوریں اور دودھ کا استعمال کیا جائے۔ پانی کم مقدار میں پیا جائے۔ تراویح کے بعد درودِ خضری پڑھتے رہیں اور سحری تک چار گھنٹے کے لئے سوجائیں۔

 

بیسواں ( ۲۰ ) روزہ

۲۰ رمضان کو سحری میں صرف ایک یا دو ڈبل روٹی کے ٹوسٹ یا دلیہ دودھ کے ساتھ کھا کر روزے کی نیت کرلیں۔ دن میں معاش کے کاموں کے علاوہ پورے وقت کلمۂ تمجید ( تیسرا کلمہ ) پڑھتے رہیں۔ افطار کے وقت ہلکی غذا کھائیں، پانی بھی کم پئیں۔ مغرب کی نماز کے بعد سے عشاء کی نماز تک درودِ خضری پڑھتے رہیں۔ تراویح کے بعد دونوں کانوں میں روئی لگالیں اور تمام رات جاگتے رہیں۔ پوری رات تلاوتِ کلام پاک، تیسرا کلمہ، درودِ خضری اور نوافل پڑھتے رہیں۔

رمضان المبارک کے بیس ( ۲۰ ) روزوں میں ظاہراً حواس کے ترک سے انسان اس قوتِ رفتار کے قریب تر ہوجاتا ہے اور رمضان کے آخری عشرہ میں اس رفتار میں مزید اضافہ کرکے اُس غیب کا مشاہدہ کرسکتا ہے جس کو اللہ  تعالیٰ نے لیلۃ القدر فرمایا ہے۔

 

اکیسواں ( ۲۱ ) روزہ

۲۱ رمضان کی سحری میں برائے نام غذا کھاکر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد تین گھنٹے پینتالیس منٹ ( ۴۵:۳ ) کے لئے سوجائیں۔ بیدار ہونے کے بعد ضروری کاموں کے علاوہ تیسرا کلمہ اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہیں۔ افطار میں ایک گلاس پانی، کم مقدار میں پھل اور چائے کے علاوہ کوئی چیز نہ کھائیں۔ افطار کے بعد سے علاوہ نماز کے رات دو بجے تک درودِ خضری پڑھتے رہیں۔ تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد اندھیرے میں لکڑی کی پیڑی یا چوکی پر قبلہ رخ ہوکر نماز کی نیت باندھ لیں آنکھیں بند کرکے یَااللہ یَارحمٰنُ یَارَحِیمُ تسبیح پڑھیں اور اللہ سے لیلۃ القدر کے فیوض و برکات حاصل ہونے کی دعا کریں۔ اس کے بعد درودِ خضری کا ورد کرتے رہیں اور ڈھائی گھنٹے کے لئے سوجائیں۔

 

بائیسواں (۲۲ ) روزہ

۲۲ رمضان کو ہلکی سحری کھاکر روزہ رکھ لیں۔ پورے دن عبادت میں مصروف رہیں۔ ایک کھجور سے افطار کریں اور مغرب کی نماز کے بعد آدھا پیٹ سے کم کھانا کھائیں۔ گزشتہ شب کی طرح کلمۂ تمجید کا ورد رکھیں اور نوافل پڑھیں۔ دو بجے چوکی پر کھڑے ہوکر متذکرہ بالا تسبیح یَااللہ یَارحمٰنُ یَارَحِیمُ پڑھیں اور جاگتے رہیں۔

 

 

تئیسواں ( ۲۳ ) روزہ

۲۳ رمضان کو تھوڑی سی سحری کھاکر فجر کی نماز کے بعد تین گھنٹے کے لئے سوجائیں۔ بیدار ہونے کے بعد پورے دن عبادت میں مصروف رہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں اور کلمۂ تمجید کا ورد کرتے رہیں۔ افطار ایک کھجور سے کریں اور غذا کم سے کم کھائیں۔ پوری رات گزشتہ رات کی طرح گزاریں۔

 

 چوبیسواں ( ۲۴ ) روزہ

۲۴ رمضان کو سحری میں ٹھوس غذا نہ کھائیں۔ دلیہ، دودھ یا سوجی کا ہریرہ استعمال کریں اور فجر کی نماز کے بعد دو گھنٹے کے لئے سوجائیں۔ دو گھنٹے سے زیادہ نہ سوئیں۔ الارم لگائیں یا کسی اور ذریعہ سے جاگ اٹھیں۔ پورے دن قرآن پاک کی تلاوت اور کلمۂ تمجید کا ورد کرتے رہیں۔ دو بجے رات کو تہجد کی نماز کے بعد لکڑی کی چوکی پر قبلہ رخ کھڑے ہوکر یَااللہ یَارحمٰنُ یَارَحِیمُ کی تسبیح 101 مرتبہ پڑھیں ۔ اس کے بعد تصور کریں کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے، مراقبہ ۱۵ منٹ سے ۲۰ منٹ کریں۔ مراقبہ کے بعد سحری تک یَااللہ یَارحمٰنُ یَارَحِیمُ کی تسبیح پڑھتے رہیں۔

 

پچیسواں ( ۲۵ ) روزہ

ہلکی سی سحری کھاکر فجر کے بعد دو گھنٹے کے لئے سوجائیں۔ دن بھر کلمۂ تمجید کا ورد کرتے رہیں۔ افطار میں پھل یا دلیہ استعمال کریں اور آدھی رات کے بعد سوجائیں۔

 

چھبیسواں ( ۲۶ ) روزہ

۲۶ رمضان کو ہلکی سی سحری کھائیں۔ یہ روزہ بھی کاروبار معاش کے علاوہ تمام وقت کلمۂ تمجید پڑھنے میں گزاریں۔ اس روزہ کی افطاری میں ایک کھجور، ایک پیالہ دودھ اور پانی کے علاوہ کوئی چیز استعمال نہ کریں۔

 

اب یہ ستائیسویں ( ۲۷ ) شب ہے

وہ افراد جو ستائیسویں ( ۲۷ ) شب کا پروگرام انفرادی طور سے کرنا چاہیں، اس شب کالی مرچ کا سفوف بناکر روئی میں ہلکا سا لگا کر دونوں کانوں میں رکھ لیں۔ حسب معمول کلمۂ تمجید اور درودِ خضری کا ورد کرتے رہیں۔دو بجے رات کو تہجد کی نماز کے بعد لکڑی کی چوکی پر قبلہ رخ کھڑے ہوکر یَارحمٰنُ یَاوَدُودُ یَااللہ کی تسبیح پڑھیں۔ اس کے بعد کلمۂ تمجید اور درودِ خضری کا ورد کرتے رہیں۔

 

رمضان کے آخری پورے عشرے میں چوبیس گھنٹے میں تین گھنٹے پینتالیس منٹ (3:45)، تین گھنٹے (3:00) اور ڈھائی گھنٹے (2:00) سے زیادہ سونا ممنوع ہے اور رات میں جس جگہ رہیں یا سوئیں وہاں شدید ضرورت کے علاوہ اندھیرا بھی ضروری ہے۔ اس پروگرام پر عمل کرنے سے آپ کے ذہن کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہوجائے گی۔ پروگرام کی کامیابی کے نتیجہ میں اللہ کے فضل و کرم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ کی تجلی کا دیدار ہوجاتا ہے اور دعائیں مقبولِ بارگاہ ہوجاتی ہیں۔

درودِ خضری : صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلیٰ حَبِیبِہِ مُحَمَّدٍ وَّسَلَّم

کلمہ تمجید: سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُِ اللہِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ.

ترجمہ: ’’اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کی توفیق نہیں مگر اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)