زندگی کی بنیاد
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11994
سوال: زندگی کی بنیاد کس طرزِ فکر پر قائم ہے؟
جواب: اب تک کے اسباق میں اس بات کی پوری طرح کوشش کی گئی ہے کہ تصوّف یا روحانیت کی راہوں میں چلنے والے مُبتدی کے ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ زندگی کی بنیاد یا بساط ایک طرزِ فکر کے اوپر قائم ہے۔
اگر وہ طرزِ فکر ایسی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے تو اس کا نام شیطنیت ہے … اور
وہ طرزِ فکر جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے
یعنی اس کائنات میں دو گروہ ہیں۔
جن میں ایک گروہ انعام یافتہ ہے… اور
دوسرا گروہ باغی اور ناشکرا ہے۔
قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اس پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں۔
ایک وہ طرز ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ ہے… اور
دوسری طرز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارنے والے دوست اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں۔ اور اس طرزِ فکر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا ہے آشنا لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہیں، سرکش ہیں اور جن کی صفات میں شیطنیت بھری ہوئی ہے وہ نعمتوں سے معمور خزانوں کے مالک ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو شیطانی طرزوں سے دور ہیں نعمتوں سے محروم ہیں۔ یہ ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جس کو ہم دنیاوی زندگی میں آسائش کہتے ہیں۔
دوسری بات جو بالکل سامنے کی ہے یہ ہے کہ زندگی کی آسائش سے متعلق وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزِ فکر سے ہم رشتہ ہیں۔ دونوں مشترک ہیں مطلب یہ ہے کہ ذُریّتِ شیطان بھی کھانا کھاتی ہے وہ بھی لباس پہنتی ہے اس کے لئے بھی اچھے سے اچھا گھر موجو دہے اور جو لوگ ذُریّتِ ابلیس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، وہ بھی کھانا کھاتے ہیں، گھر میں رہتے ہیں، لباس پہنتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے اور جواہرات کے انبار سے ضروریات پورے ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک آدمی کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ ہے تو وہ دو ہی روٹی کھائے گا، دوسرے آدمی کے پاس اگر محل موجود ہے اور اس محل میں ۵۰ کمرے ہیں تو سونے کے لئے اسے ایک چارپائی کی جگہ کی ضرورت پیش آتی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا نہ ہو گا کہ پچاس کمروں کا مالک کوئی بندہ جب سونے کے لئے لیٹے تو اس کا جسم اتنا دراز اور اتنا پھیل جائے کہ وہ دس چارپائیوں کی جگہ گھیر لے۔ سونے کے لئے اسے ایک ہی چارپائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
علیٰ ہذاالقیاس یہی حال پوری زندگی کے اعمال و حرکات کا ہے۔ اس مختصر تشریح سے یہ ثابت ہوا کہ دنیاوی طرزِ فکر میں ذُریّتِ ابلیس اور اس کے خلاف دوسرے لوگ مادّی زندگی کے وسائل میں مشترک قدریں رکھتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انعام کیا ہے کہ جس انعام کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ کہا ہے اور جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں دوستوں کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو بندہ ہمارا دوست بن جاتا ہے ہم اس کے اوپر سے خوف اور غم اٹھا لیتے ہیں۔
خوف اور غم جس آدمی کی زندگی سے نکل جاتا ہے تو خوشی اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ یہ وہ انعام ہے جو ہمیں ظاہرہ آنکھ سے نظر نہیں آتا۔ یہ وہی انعام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہماری ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہم نے ان کے کانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے، وہ اس دنیا میں سوچتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے۔ مطلب یہ ہُوا کہ مہر اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دنیاوی طور پر اندھا ہو گیا ہے یا اس کی عقل سلب ہو گئی ہے یا اس کے کانوں میں سیسہ ڈال دیا گیا ہے۔ جن صفات سے آدمی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اس کی سماعت میں سے وہ صفَت نکال لی گئی ہے جس کے ذریعے سے غیب کی آوازیں سنتا ہے۔ فرشتوں سے ہمکلام ہوتا ہے اس کی ان آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے جن آنکھوں سے وہ غیب کی دنیا دیکھ سکتا ہے۔ اگر ان آنکھوں پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے دربار اقدس میں حاضر ہو کر کھلی آنکھوں سے حضورﷺ کی ذاتِ اقدس کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اِس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے قلب میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کر سکیں۔ ان کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ فرشتوں کی آواز سن سکیں۔ ان کی آنکھوں میں اتنی چمک نہیں ہے کہ وہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا دیدار کر سکیں۔ وہ سب لوگ ذُریّتِ ابلیس میں آتے ہیں۔
بات بہت زیادہ سخت ہے لیکن امرِ واقعہ یہی ہے کہ ارکان اسلام کی ماہیت اور حقیقت میں اگر تفکر کیا جائے تو ہر رکن اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق روحانی طرزوں اور روحانی صفات اور روحانی صلاحیتوں سے ہے۔ اسلام میں بنیادی رکن حضورﷺ پر ایمان لانا ہے۔ ایمان لانے کے بعد حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ہے لیکن دنیا کا کوئی قانون اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر دیکھے شہادت معتبر ہو سکتی ہے۔
کلمۂ شہادت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان شیطنیت سے آزاد ہو کر فی الواقع ایمان کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو سیدنا حضورﷺ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ اور وہ برملا حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ قانون شہادت یہ ہے کہ شہادت بغیر دیکھے معتبر نہیں ہوتی۔ مسلمان ہونے کے بعد جن باتوں پر یقین ضروری ہے، جو ایمان کی شرائط میں داخل ہیں ان میں پہلی بات غیب پر یقین ہے کہ ہم غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جب تک کوئی بات مشاہدے میں نہیں آتی۔ یقین متزلزل رہتا ہے اس کے بعد ملائکہ کا تذکرہ آتا ہے پھر ان کتابوں کا تذکرہ آتا ہے جو حضورﷺ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئیں پھر یوم آخرت کا تذکرہ آتا ہے۔ یہ تمام تذکرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انسان کے اندر کوئی ایسی آنکھ موجود ہے جو ظاہر پردوں کے پیچھے دیکھتی ہے انسان کے اندر ایسے کان موجود ہیں جو ماورائی آوازیں سن کر ان کے معانی اور مفہوم کو سمجھتے ہیں۔ ایسی آنکھیں موجود ہیں جو آنکھیں زمان ومکان کی تمام حد بندیوں کو توڑ کر عرش پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتی ہیں۔ ایسا قلب موجود ہے جو محسوس کرتا ہے، قلب اللہ کا گھر ہے اور اس گھر میں مکین کو دیکھتا ہے۔ روحانیت یا تصوّف سالکان طریقت کو اسی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ آدمی ظاہرہ حواس سے ہٹ کر ان حواس کا کھوج لگائے جن حواس میں لطافت ہے، نرمی ہے، رحمت ہے، محبت ہے، حلاوت ہے، نور ہے، روشنی ہے، جن حواس سے بندہ اپنے آقا رسول اللہﷺ کے قدموں میں سرنگوں ہوتا ہے۔ جہاں تک دنیاوی زندگی گزارنے کے لئے مفروضہ حواس کا تعلق ہے۔ ان حواس میں آدم اور بکری اور کتا برابر کے شریک ہیں۔
ہم اس بات کو پچھلے اسباق میں بیان کر چکے ہیں اور اب پھر اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے تا کہ ذہن نشین ہو جائے ۔
جہاں تک عقل و شعور کا تعلق ہے کتا بھی عقل رکھتا ہے، آدمی بھی عقل رکھتا ہے۔ بعض حالات میں کتا انسان سے زیادہ عقل مند ہے۔ دوسری بات جو زیر بحث آتی ہے وہ ساخت کی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت پر تخلیق کیا ہے وہ ساخت اس قسم کی ہے کہ اس ساخت کی وجہ سے وہ عقل سے زیادہ کام لے سکتا ہے۔ اگر بلّی کی ساخت انسانوں کی طرح ہوتی اور جس طرح انسان دو پیروں پر چلتا ہے اسی طرح بلّی بھی دو پیروں پر چلتی تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بلّی کار ڈرائیو نہ کر سکتی۔ دنیاوی عقل کا تعلق جہاں تک ہے اللہ کی سب مخلوق عقل رکھتی ہے جہاں تک عقل میں کمی بیشی کا تعلق ہے وہاں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ آدمی بھی سب عقل مند نہیں ہوتے۔ ہزاروں لاکھوں میں چند دانشور نکلتے ہیں اور اس دانشوری کے اندر غوطہ لگا کر جب کوئی گوہر نایاب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ذہن میں بے عقلی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
انسان روزانہ ترقی کے نعرے لگاتا ہے۔ روزانہ ایجادات کے لئے نئے فارمولے زیر بحث آتے ہیں، کچھ دن ان فارمولوں کا چرچا رہتا ہے پھر خود ہی ان فارمولوں کی نفی ہو جاتی ہے۔ آج کا دانشور جو کہتا ہے آنے والی کل کا دانش ور اسی بات کی نفی کر دیتا ہے جب کہ عقل سلیم یہ بات جانتی ہے کہ حقیقت میں تغیّر و تبدل اور تعطّل واقع نہیں ہوتا۔ حقیقت اپنی جگہ اٹل رہتی ہے۔ اربوں کھربوں سال سے چاند چاند ہے، سورج سورج ہے، زمین زمین ہے، اربوں کھربوں سال سے چاند کی گردش کے جو فارمولے قدرت نے مُتعیّن کر دیئے ہیں ان میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ سورج کے اندر روشنی پیدا کرنے کے جو فارمولے قدرت نے بنا دیئے ہیں ان میں کبھی تغیّر و تبدل واقع نہیں ہو گا۔
اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس بات میں تغیّر و تبدل تعطّل واقع ہو سکتا ہے وہ حقیقی نہیں ہے اس کی بنیاد فکشن اور مفروضہ حواس پر ہے۔ تصوّف اور روحانیت مفروضہ اور فکشن حواس کی نفی کر کے آدمی کو حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 91 تا 96
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔