روح کا روپ
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2645
روحانی علماء بتاتے ہیں کہ روح کے ستر ہزار پرت ہیں۔ ہر پرت انسان کے اندر اس کی اپنی صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت ہر مرد اور ہر عورت میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کو مثالیں دے کر سمجھاتے ہیں۔ دنیا کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔ جب بندہ اس نشانی پر غور کرتا ہے تو بے شمار عجائبات کی پردہ کشائی ہوتی ہے۔
ایک بڑی پیاز(Onion) لیجئے۔ اس کے پرت اتاریئے۔ پرت اتارنے کے بعد پیاز کے بالکل وسط میں ایک ڈنٹھل ملے گا۔ اس ڈنٹھل کے ساتھ پیاز کے سارے پرت چکے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہی مثال روح کی ہے۔
ڈنٹھل کو اگر روح مان لیا جائے تو پرت ایک صلاحیت ہے۔ جس طرح پیاز کے ہر پرت میں پیاز کی خاصیت موجود ہے اس طرح روح کا ہر پرت اللہ کی صفت کا مظہر ہے۔
روح عورت، مرد نہیں ہوتی۔ روح کے پرتوں کا الگ الگ مظاہرہ مذکر اور مونث کے روپ میں ہمیں نظر آتا ہے۔
کروموسومز(Chromosomes) میں بارہ چھلے ہوتے ہیں۔ ہر چھلہ کا اپنا الگ رنگ ہوتا ہے۔ بطن مادر میں اگر ان چھلوں کے رنگ میں یکسانیت رہتی ہے تو “سراپا مردانہ” خصوصیت کا حامل ہوتا ہے اور اگر ایک چھلہ کا رنگ بھی پوری طرح دوسرے گیارہ چھلوں کے ہم مقدار نہ رہے تو “سراپا” میں اسی مناسبت سے مردانہ اوصاف کم ہو جاتے ہیں۔ بارہ چھلوں میں سے کسی ایک چھلہ کے رنگ کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو جائے تو مونث رخ تشکیل پا جاتا ہے۔
قرآن حکیم کے ارشاد کے مطابق ہر عورت اور مرد روح کا روپ بہروپ ہے۔ جب کوئی بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے تو اسے ماورائی صلاحیتوں کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور یہی انکشافات آدم کو حیوان سے انسان بناتے ہیں انسان کے اوپر تسخیر کائنات کی دستاویز قرآن کے علوم منکشف ہونے لگتے ہیں اور جب یہ علوم منکشف ہو جاتے ہیں تو قوم معزز ہو جاتی ہے اور دنیا پر حکمران بن جاتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مرد حضرات احسن طریقے پریہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکے اور اس طرح ناشکری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب قدرت نے خواتین کو معزز اور محترم کرنے کے لئے وسائل فراہم کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
خواتین کے اوپر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کیا جائے۔ استعمال یہ ہے کہ بلاتخصیص نوع انسانی کی فلاح کے لئے عملی جدوجہد کی جائے۔
معاشرہ کو سدھارنے کے لئے پہلے اپنی اصلاح کی جائے۔ پھر دوسروں کی اصلاح کے لئے توجہ دی جائے۔
رسول اللہﷺ کے اخلاق حسنہ پر عمل کیا جائے۔ تفکر کو اپنا شعار بنایا جائے۔ اور پیغمبرانہ طرز فکر کے ساتھ اصلاح احوال کی تبلیغ کی جائے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو اور ہمیں اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔
آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۰ جون ۲۰۰۲ ء
مرکزی مراقبہ ہال۔ سرجانی ٹاؤن
کراچی۔ پاکستان
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 76 تا 78
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔