رنج و غم کیوں جمع ہوتے ہیں؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13477
سوال: ہمارے ارد گرد پریشانیاں اور رنج و الم کیوں جمع ہو گئے ہیں۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ کا نائب ہے۔ آسمانوں اور زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ اس کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔ پھر وہ سکون، راحت و آرام سے محروم کیوں ہے؟
جواب: صدیوں سے زمین پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ زندگی کے اَدوار، زمانہ کے نشیب و فراز اور سائنسی ایجادات زمین کے سینے میں محفوظ ہیں۔ زمین یہ بھی نہیں جانتی کہ کتنی تہذیبوں نے اس کی کوکھ سے جنم لیا اور پھر یہ تہذیبیں معدوم ہو گئیں۔
خلاء سے اُس پار آسمانوں کی وسعتوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو مایوسیوں، ناکامیوں اور ذہنی افلاس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ زمین کے باسیوں کا اپنی ذات سے فرار اور منفی طرز عمل دیکھ کر نیلے امبر پر جھلمل کرتے ستاروں کی شمعِ امید کی لَو مدھم پڑ گئی ہے۔ وہ انسان جو اشرف المخلوات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ جو سکون ایک بلی اور بکری کو حاصل ہے، اس کا عشر ِعشِیر بھی انسان کو میسر نہیں۔
بہترین تخلیق کرنے والی ہستی اور خود مختار خالقِ کائنات نے اس دھرتی کو ایک قطعۂِ زراعت بنا کر آدمی کے حوالے کیا ہے کہ وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر پُرسکون میٹھی نیند سو سکے۔ اس ہی لئے اس کی تخلیق کا ظاہری جسم مٹی سے بنایا گیا ہے اور اس کے استعمال کی ہر چیز اس مٹی سے بنائی گئی ہے۔ زمین کو قدرت نے اتنا سخت نہیں بنایا کہ آدم زاد اس پر چل نہ سکے۔ اتنا نرم نہیں بنایا کہ آدم زاد کے پیر زمین میں دھنس جائیں۔ اسے اختیار دیا گیا کہ وہ زمین پر تصرّف کر سکے اور زمین کے جسم میں دوڑنے والے خون (Rays) سے جس طرح چاہے استفادہ کرے۔ لاکھوں کروڑوں سال پہلے آدم علیہ السّلام کی طرح آج بھی آدم زاد زمین کے سینے پر کھیتی کرنے میں مصروف ہے۔ اس کھیتی کا ہر جُزو بھی آدم کی طرح مٹی ہے۔ جو کچھ بوتا ہے اس کا بیج بھی مٹی ہے۔ پودا بھی مٹی کی ایک شکل ہے۔ درخت بھی مٹی کے اجزاء سے مرکب ہے۔ سونا چاندی بھی مٹی کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں اور یہ جو پُر شکوہ عمارتیں ہمیں نظر آتی ہیں یہ بھی مٹی ہی ہیں۔ بڑی سے بڑی ایجادات کا بنیادی مسالہ Raw Materialبھی مٹی ہے۔
آدمی جس طرح سرسبز درخت اور ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اُگاتا ہے اسی طرح عمارتیں، تعمیرات اور دیگر اشیاء بھی اس کی زراعت کی پیداوار ہیں۔ آدمی جب مٹی بوتا ہے تو نتیجہ مٹی کی ہی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ بوائی اور کٹائی کا یہ عمل متواتر اور مسلسل جاری ہے کیونکہ وہ اس زراعت کا فعّال رکن ہے اور اسے ارادے کا اختیار دیا گیا ہے اس لئے فصل بھی اس کے مطابق ہوتی ہے۔ عمل اور ردِّ عمل، حرکت اور نتائج کے اس قانون کو حضور اکرمﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘
قول و فعل کے تضاد کا یہ عالم ہے کہ ہر آدمی یہ جانتا اور کہتا ہے کہ زمین پر وقفۂِ زندگی محدود ہے لیکن اس کا عمل اِس روزمرّہ مشاہدے کے خلاف ہے۔ وہ تمام تر زندگی ان خطوط پر گزارتا ہے جو فطرت کے اٹل قانون کے منافی ہیں۔ تخریب کا نام اس نے ترقی رکھا ہے اور فلاح و بہود کے نام پر مستقبل کی ناخوشگواریوں کو جنم دیتا ہے۔ روشن نگاہی کا دعویٰ کر کے جو کچھ کرتا ہے وہ بدترین درجے کی کوتاہ اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انسان قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا امین ہے لیکن اس نے ان صلاحیتوں کو حرص و ہوس، خود غرضی، انا پرستی اور خود نمائی جیسے جذبات کی تسکین میں استعمال کیا ہے۔ اپنی ذات تک محدود عمل کے نتیجے میں آدمی کی ساری توجّہ اس فانی دنیا میں مرکوز رہتی ہے اور اس کے اعمال کی بنیاد بھی فانی دنیا کی طرح بن جاتی ہے چنانچہ جب وہ دنیا بوتا ہے تو اسے دنیا ہی کاٹنا پڑتی ہے چونکہ دنیا فانی ہے۔ اس لئے اس کے حصے میں فنا کے علاوہ کچھ نہیں آتا اور وہ بقا کی زندگی سے جس میں سکون، راحت اور آرام ہے محروم ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 185 تا 187
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔