ذہن بیمار یا جسم بیمار
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12721
سوال: انسان بیمار کیوں ہوتا ہے اس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کی رائے مختلف ہے مثلاً اہل فلسفہ و نفسیات کہتے ہیں کہ بیماری ذہن سے جسم پر منتقل ہوتی ہے جب کہ میڈیکل سائنس بیماری کی وجوہات کو جسم میں تلاش کرتی ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ذہن بیمار ہوتا ہے یا صرف جسم ہی بیمار ہوتا ہے؟ کیا ذہنی مسئلے کو حل کرنا چاہئے یا جسم کو علاج بہم پہنچایا جائے جس سے شفا حاصل ہو؟
جواب: انسانوں کی زندگی کا دارومدار خیالات کے اوپر ہے اور خیالات ماحول سے متاثر ہوتے ہیں یا ماحول خیالات سے بنتا ہے۔ اگر آپ کے ماحول میں صفائی نہیں Pollution زیادہ ہے۔ دھوئیں کا Pollution شور کا Pollution ۔۔۔۔۔۔انسانی ذہنی پیچیدگی کا Pollution ۔۔۔۔۔۔خود غرضی کا Pollution ۔۔۔۔۔۔ ہو تو آدمی کا ذہن متاثر ہوتا ہے۔ اور انسانی ذہن کے اوپر ایک دباؤ پڑتا ہے، خیالات میں دباؤ سے معدہ متاثر ہوتا ہے۔ نیند ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔ آدمی الجھا الجھا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ مزاج میں تلخی اور چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔ یہ سب عوامل مل کر بیماری بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔بیماری کا اثر پہلے دماغ قبول کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اگر ماحول میں صفائی ستھرائی ہو۔۔۔۔۔۔پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہو، غذاؤں میں ملاوٹ نہ ہو۔۔۔۔۔۔نمک میں پتھر پِسا ہوا نہ ہو۔ مرچوں میں اینٹیں پِسی ہوئی نہ ہوں۔۔۔۔۔۔دھنیے میں لکڑی کا بُرادہ نہ ملایا گیا ہو۔ گھر میں ناقص تیل ملا ہوا نہ ہو تو انسان کا ذہن ہلکا رہتا ہے۔ غذا کی افادیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر خود غرض انسان! انسانی زندگی میں زہر گھولنے لگے تو نتیجے میں خیالات کی پاکیزگی بھی ختم ہو جاتی ہے اور انسان کے ذہن سے پریشر اور دباؤ جسمانی بیماری کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
بیماری کہاں سے شرو ع ہوتی ہے؟ بیماری ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں زندگی میں اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اعتدال برقرار نہ رہے۔ اگر انسان دولت پرستی میں مبتلا ہے۔ اس نے دولت کو زندگی کا نصب العین بنایا ہے۔ آرام و آسائش کا وقت بھی دولت کے حُصول میں صرف ہو جاتا ہے ایسی صورت میں دولت اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ عذاب کا مطلب ہے آگ، گرمی، شدت، تپش۔۔۔۔۔۔تیز گرم جھلسا دینے والی ہوا، گیس۔ جب یہ چیزیں خون میں شامل ہو جاتی ہیں تو دماغ ان سے نبرد آزما ہو جاتا ہے اور وہ ہر حال میں اپنی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن مسلسل تپش اور جھلسا دینے والی لہروں سے وہ متاثر ہو کر اس تپش کو جسم کے کسی حصے پر پھینک دیتا ہے اور جس حصے پر یہ عذاب نازل ہوتا ہے اس حصے میں جھلسنے کی وجہ سے Cavity بن جاتی ہے اور بار بار جھلسنے سے اس کے اندر ایک کیڑا پیدا ہو جاتا ہے اور یہی وہ کیڑا ہے جسے آج کی اصطلاح میں کینسر کہا جاتا ہے۔
چونکہ یہ کیڑا ٹشوز کے جھلسنے سے اس کے اندر سڑاند سے پیدا ہو اہے۔ اس لئے اس کی غذا بھی ٹشوز ہوتے ہیں۔ جتنا سیال خون ان ٹشوز کے اندر سے گزرتا ہے کینسر ان سب کو پی لیتا ہے۔ نتیجے میں ریڈ پارٹیکلز کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
بیماری کا تعلق ذہن سے ہے طرزِ فکر سے ہے جب ذہن بیمار ہو جاتا ہے تو ذہن یا دماغ اس بیماری کو جسم کے اوپر پھینک دیتا ہے۔ اگر ذہن پاکیزہ ہو۔ اگر خیالات میں یکسوئی ہو۔ بندہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہو اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہے تو اسے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے اسی مناسبت سے بیماریاں بندے کو کم شکار کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکون قلب حاصل ہوتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 178 تا 180
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔