دعا آسمان سے کیوں پھینکی جاتی ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12071
سوال: جنّت کی سیر میں سعیدہ خاتون عظیمی نے ایک جگہ خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ فرشتے جن دعاؤں کو مقبولیت کے قابل نہیں سمجھتے اسے آسمان سے پھینک دیتے ہیں جبکہ ارشاد خداوندی ہے کہ لوگو مجھے پکارو، میں سنوں گا، مجھ سے دعا مانگو میں دونگا۔ انسان خدا سے دعا کے ذریعہ مانگتا ہے۔ دعا کے ذریعہ خدا کو پکارتا ہے تو فرشتے دعا کو قابلِ قبول کیوں نہیں سمجھتے، آسمان سے کیوں پھینک دیتے ہیں؟
جواب: بات سیدھی ہے کہ ہر چیز کے آداب اور اصول ہیں۔ دعا مانگنے کے بھی آداب ہیں۔
کچھ بھی مانگنے کے اصول ہیں مثلاً بیٹا باپ سے کہے کہ ’’ابے ابّا! پیسے نکال‘‘۔ ابّا اسے پیسے نہیں دیں گے بلکہ تھپڑ مار دیں گے اور کہیں گے کہ دُور ہو جاؤ، دفع ہو جاؤ اور اگر وہی بیٹا یہ کہے کہ ابّا جی مجھے پیسے چاہئیں، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے تو ابّا دو روپے کی بجائے اسے ۵روپے دے دیں گے۔ موجودہ دور میں جو دعائیں مانگی جاتی ہیں آپ اس پر ذرا غور کریں کہ اس کے اندر نہ گداز ہوتا ہے نہ عاجزی ہے نہ انکساری ہوتی ہے بلکہ ایک آرڈر ہوتا ہے کہ اللہ میاں یہ کر دے، اللہ میاں یہ کر دے، اس میں نہ ادب ہے نہ احترام ہے، نہ گداز ہے نہ یقین ہے تو وہ دعائیں فرشتے آسمان سے نیچے نہیں پھینکیں گے تو کیا کریں گے؟
میں ۶۰ سال سے ایک بات سنتا ہوا آ رہا ہوں کہ یا اللہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق کر دے۔ حج میں بھی یہ دعا ہوتی ہے، ہر مسجد میں یہ دعا ہوتی ہے، ہر مدرسہ میں یہ دعا ہوتی ہے اور لاکھوں، کروڑوں آدمی آمین کہتے ہیں لیکن یہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ ۶۰ سال تو ہو گئے ہم کو سنتے ہوئے جتنا دعا مانگتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق ہو جائے اتنا ہی بنی اسرائیل کا عروج ہو رہا ہے۔ آخر کیا مطلب ہے؟ ۶۰ سال کیا کسی دعا کے قبول ہونے کیلئے کم وقت ہے؟ کروڑوں مسلمان یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق ہو جائے مگر بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق نہیں ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: مجھ سے مانگو میں دونگا میں قبول کروں گا، تم دعا مجھ سے مانگو تو سہی… جب آپ دعا کے آداب ہی پورے نہیں کرتے، اللہ کے اوپر یقین ہی نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ زبانی جمع خرچ کو نہیں مانتا۔
قرآن کریم میں ہے اعمال سے قوموں کی تقدیروں میں ردّ و بدل ہوتا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے اعمال ہی قرآن کے مطابق نہیں ہیں۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے مگر وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بہت بڑا پاپ ہے لیکن ہر شوہر بیوی کی دل آزاری کر رہا ہے، ہر بیوی شوہر کی دل آزاری کر رہی ہے، ماں باپ بچوں کی دل آزاری کر رہے ہیں۔ آپ غور تو کریں کہ معاشرہ میں کس قدر برائیاں داخل ہو گئی ہیں۔ اس معاشرہ میں کیسے آپ کی دعا قبول ہو گی؟ کس بات پر آپ اللہ تعالیٰ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی دعا قبول کریں گے؟ مسلمان ہر وہ کام کر رہا ہے جو رسول اللہﷺ کو ناپسند ہے، جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے بلاشبہ اللہ ان کی دعا قبول کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کی دعائیں رد ہو جاتی ہیں۔ جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتا ہے۔
میرا بیٹا اسلام عارف عظیمی بتا رہا تھا کہ جامع مسجد راولپنڈی میں ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے۔ انہوں نے دعا کرائی یا اللہ ایسا کر کہ بنی اسرائیل کا بیڑہ غرق کر دے، ایسا کر کہ کفار اس دنیا سے نیست و نابود ہو جائیں۔ جوش خطابت میں کہنے لگے کہ یا اللہ بنی اسرائیل کی توپوں میں کیڑے ڈال دے… یعنی توپ کو اللہ انسان بنا دے، آٹا بنا دے اور اس میں کیڑے ڈال دے۔ یہ کتنی بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کہ آدمی کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کیا مانگ رہا ہوں تو دعا کیسے قبول ہو گی؟
دعا وہی رد ہوتی ہے جس کے ساتھ گداز نہ ہو جس کے ساتھ دلی تعلق نہ ہو اور جس کے ساتھ یقین نہ ہو۔ اگر دعائیں گداز ہیں اگر دعا میں آپ کا دل شامل ہے اگر دعا کے ساتھ ساتھ یقین ہے تو دعا ضرور قبول ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خالی دعا کو نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے عمل کرو پھر دعا کرو پھر قبول کرونگا۔ حضورﷺ کی زندگی ہمارے سامنے ہے حضورﷺ نے پہلے عمل کیا پھر دعا فرمائی۔ آپﷺ کو جتنے مجاہد میسر آئے انہیں لے کر میدان میں جہاد کیلئے تشریف لے گئے۔ پھر عرض کیا کہ اے میرے اللہ میں اتنے بندے ہی لا سکتا تھا۔ اب آپ ہماری مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے فرشتے نازل کر دیئے … تو بغیر عمل کے دعا قبول نہیں ہوتی۔ عمل کے ساتھ ساتھ گداز ہونا چاہئے، یقین ہونا چاہئے تو ایسی دعائیں قبولیت کے درجہ پر فائز ہوتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 132 تا 134
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔