خیالی اور حقیقی خواب
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12067
سوال: خیالی خواب اور حقیقی خواب میں کیا فرق ہے نیز یہ کہ انسان جب کسی کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا ہے تو وہ خیال کی صورت میں خواب میں نظر آ جاتا ہے۔ اگر رجحان اچھی باتوں کی طرف ہے تو جو خواب دیکھتا ہے اس کو اچھا کہا جاتا ہے لیکن جب برے خیال خواب بنتے ہیں تو اس کو برا کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی خیال ہوتا ہے۔
جواب: کائنات میں کوئی بھی خیال کوئی بھی واہمہ اور کوئی بھی تصوّر بے معنی نہیں ہے۔ ہر خیال کے دو قسم کے معنی نکلتے ہیں۔
1. اس خیال میں رحمانی قدروں سے متعلق معنی ہوتے ہیں، یا
2. خیالات شیطانی قدروں سے متعلق ہوتے ہیں۔
علوم کی دو قسمیں ہیں۔
1. شیطانی علوم ، اور
2. رحمانی علوم۔
جتنے بھی پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے، حضورﷺ تک انہوں نے ایک ہی بات کہی ہے کہ رحمانی علوم سیکھنے کے بعد ان پر عمل کرو تا کہ تم رحمان سے قریب ہو جاؤ۔ شیطانی علوم نہ سیکھو اور شیطانی علوم پر عمل بھی نہ کرو اس لئے کہ اگر تم نے شیطانی علوم پر عمل کیا تو شیطان سے قریب ہو جاؤ گے۔ ظاہر ہے کہ جو بندہ شیطان سے قریب ہو جائے گا وہ رحمان سے دور ہو جائے گا اور جو بندہ رحمان سے قریب ہو جائے گا وہ شیطان سے دور ہو گا۔
خواب و خیال کی بات جو آپ نے پوچھی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان کے ذہن میں ۲۴ گھنٹے ایک ہی خیال رہتا ہے ’’پیسہ، پیسہ، پیسہ‘‘ اس کو پیسہ کی ہوس ہے تو خواب میں وہ دولت ہی دیکھے گا اور ایک آدمی کے ذہن میں اللہ کی محبت پیغمبروں کی تعلیمات، اولیاء اللہ کی محبت ہو گی تو وہ ہروقت اسی خیال میں رہتا ہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت مل جائے۔ حضورﷺ کا قرب نصیب ہو جائے۔ حضورﷺ کی زیارت ہو جائے تو اس کے خواب بھی پاکیزہ ہوں گے۔ پیغمبروں نے شیطینت کو رد کیا ہے اور شیطانی خیال سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کیلئے اور رحمانی علوم سیکھنے کیلئے پوری نوعِ انسانی کو دعوت دی ہے۔ خواب کی دو طرزیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو خیالات ہر وقت ذہن میں گشت کرتے رہتے ہیں وہ مسخ صورت ہو کر نظر آ جائیں۔ دوسری یہ کہ عالم بالا میں جو پاکیزہ خیالات گشت کر رہے ہیں وہ نظر آ جائیں۔ مسخ صورت خواب رویاءِ کاذبہ اور حقیقی خوابوں کو رویاءِ صادقہ کہا جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 131 تا 132
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔