خالقِ خدا
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11853
سوال: ہر انسان جب اللہ کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو ایک سوال اس کے ذہن میں ضرور آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے تخلیق کیا۔ آپ اس سوال کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: یہ بات اس لئے ذہن میں آتی ہے کہ ہم زندگی کو شعوری پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ مثلاً ہر آدمی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ میں پیدا ہوا اور میری پیدائش کا ذریعہ والدین بنے۔ علیٰ ہذالقیاس ہر مخلوق کے بارے میں اس کا شعوری مشاہدہ یہی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان شعوری حواس یعنی شک، وسوسہ اور بے یقینی کی دنیا سے آزاد ہو کر یقین کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں اس کے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ وہ اور پوری مخلوقات کو ایک ہستی نے بنایا ہے تو یہ بات اس کے ذہن سے حذف ہو جاتی ہے۔ یعنی اس لا یعنی بات کا خانہ ہی ختم ہو جاتا ہے اور جب اس بات سے کہ خدا کو کس نے بنایا ہے، ذہن آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر یہ بن جاتی ہے کہ وہ ہر بات اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہے اور اللہ ہی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (سورۃ آلِ عمران – آیت نمبر 7)
ترجمہ: ’’وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارا ایمان ہے اور اس بات پر یقین ہے کہ ہر چیز ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘
جتنے پیغمبر علیہم الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ان سب کی طرز فکر یہی رہی کہ ہمارا بشمول کائنات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک رشتہ براہ راست قائم ہے اور یہ رشتہ ہی کائنات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات بھی یہی رہیں کہ بندے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ بندہ ذاتِ باری تعالیٰ کے رشتہ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے رشتہ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو کچھ جس طرح اور جب کرنا چاہتے ہیں وہی انسان کا عمل بنتا ہے۔ پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اسی طرز فکر میں ایک اور طرز فکر شامل کی ہے وہ یہ کہ انہوں نے اچھائی اور برائی کا تصور عطا کیا اور اچھائی اور برائی کا یہ تصور اس لئے ظاہر فرمایا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ یہی چاہتے ہیں۔ اگر اچھائی اور برائی کا تصور نہ ہوتا تو اختیارات اور نیکی اور بدی ناقابل تذکرہ ہو جاتے ہیں۔ اس بات سے کوئی آدمی انکار کی مجال نہیں رکھتا کہ شیطان کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ کہنا یہ ہے کہ شیطان یا شر کو ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے جدا نہیں کر سکتے۔ لیکن شیطان زندگی کا ایک ایسا رخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ناپسندیدہ ہے اور شیطنت کے برعکس اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ عمل ہے۔ لیکن جو لوگ تخلیق کے اس رخ سے واقف ہیں اور جن کا ایمان، یقین اور مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ یہ بات بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کو اپنی زندگی بنا لیتے ہیں تو ان کے اندر سے شر نکل جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر شیطان ان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے شادی نہیں کی۔ کیا آپ کو شیطان سے ڈر نہیں لگتا؟ حضرت صاحبہؒ نے فرمایا۔ ’’مجھے رحمان سے ہی فرصت نہیں۔‘‘ جب رحمان سے ہی فرصت نہیں تو شیطان کا خیال ہی نہیں آتا۔ اسی بات کوخواجہ غریب نوازؒ نے یوں فرمایا ہے:
’’یا ردم بہ دم و بار بارمی آید۔‘‘
حضور غریب نوازؒ فرماتے ہیں کہ
’’میری سانس کے ساتھ اللہ بسا ہوا ہے اور میری ہر سانس اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ جب ہر سانس کی وابستگی براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو تو وہاں شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ بات مشکل ہے لیکن واقعتاً ایسا ہوتا ہے کہ ایسے برگزیدہ اور پاک نفس بندے موجود ہوتے ہیں جن کے ذہن سے شر کا خانہ نکل جاتا ہے۔ اور جب شر کا خانہ نکل جاتا ہے تو خیر کا خانہ بھی حذف ہو جاتا ہے۔ شر اور خیر دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے روشنی اور تاریکی، گرم و سرد، تلخ و شیریں، راحت اور تکلیف، خوشی اور غم، غصہ اور محبت وغیرہ لازم و ملزوم ہیں۔ بظاہر یہ بات خلاف عقل اور خلاف شرع معلوم ہوتی ہے لیکن ایسا ہی ہے۔ یہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہمارے بندے ایسے بھی ہیں جو ہماری آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ہماری زبان سے بولتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں۔
ان بندوں کی طرز فکر میں یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری حیثیت ایک معمول کی سی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تابع ہیں۔ مشیئت جو چاہتی ہے اور جیسا حکم دیتی ہے وہی ہوتا ہے۔ اگر مشیئت یہ چاہتی ہے کہ کسی زمین پر آباد بستی کو ختم کر دیا جائے تو ایسے بندے کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ قتل عام ہے۔ بس اس کے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت یہ ہے کہ زمین کا تختہ الٹ دیا جائے۔ یہ تعریف ہے ان لوگوں کی جن کو صاحبِ خدمت کہا جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے اندر اچھائی اور برائی کا تصور ہے اور وہ اچھائی کو اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتے ہیں اور برائی سے اس لئے بچتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ خاتم النبیین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ دونوں طرز ہائے فکر ان کی امّت کو منتقل ہوئی ہیں۔
علوم کے بارے میں گفتگو کے دوران حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علم کے دو لفظ ملے ہیں۔ ایک کو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو چھپا لیا۔ لوگوں نے پوچھا کیا علم بھی چھپانے کی چیز ہے؟ آپؓ نے اس کو کیوں ظاہر نہیں کیا؟
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں اگر وہ لفظ ظاہر کر دوں تو تم لوگ مجھے قتل کر دو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 23 تا 26
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔