حضرت لُوط علیہ السّلام

مکمل کتاب : محبوب بغل میں

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13415

حضرت لُوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے تھے۔ آپ کے والد کا نام حاران تھا۔ حضرت لُوط علیہ السّلام ابھی کم عمر تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کی پرورش کی۔ آپ کے بچپن اور جوانی کا کافی عرصہ انہی کی زیرِ نگرانی بسر ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت لُوط علیہ السّلام کا نام سر فہرست ہے۔آپ کی جائے پیدائش عراق کا قدیم شہر ’’اُور‘‘ ہے۔ یہی شہر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا مسکن بھی تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے جب حاران اور بعد ازاں مصر میں سکونت پذیر ہوئے تو حضرت لُوط علیہ السّلام ان کے ہمراہ تھے۔ یہیں حضرت لُوط علیہ السّلام کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا۔
شرقِ اُردن اور فلسطین کے درمیان بحرِ مردار کے کنارے جنوبی حصّے میں سرسبز و شاداب وادیاں تھیں۔ یہ علاقے سُدوم اور عمورہ کے نام سے مشہور تھے۔ ان علاقوں میں پانی کی فروانی کی وجہ سے زمین زرخیز تھی۔ کھیتی باڑی خوب ہوتی تھی۔ ہر قسم کے پھل، سبزیوں اور باغات کی کثرت تھی۔ ان علاقوں کے باشندے خوشحال تھے اور زندگی کی آسائشیں انہیں حاصل تھیں۔
اَزلی دشمن ابلیس نے انہیں گمراہ کرنے کے لئے اس خوشحالی اور آسائش کی زندگی کو استعمال کیا۔ ان بستیوں کے مکین اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کو اپنے زور بازو پر مَحمول کرنے لگے اور عطائے خداوندی کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ قادرِ مُطلَق ذات جب ان کے معِعم نظر نہ رہی تو وہ غرور اور تکبر سے بدمست ہو گئے۔دوسری بستیوں کے لوگوں کا ان سرسبز و شاداب وادیوں میں آنا جانا رہتا تھا۔ یہ بات اہلِ سُدوم کو ناگوار گزرتی۔ وہ ان وادیوں کی سرسبزی اور شادابی کو اپنی ملکیت تصوّر کرتے تھے اور دوسرے علاقوں کے باشندوں کا ان نعمتوں سے مستفید ہونا انہیں گوارا نہ تھا۔ اس آمد و رفت کو روکنے کا ایک طریقہ انہوں نے یہ نکالا کہ وہ باہر سے آنے والے لوگوں کا مال و اسباب لوٹ لیتے تھے۔ اس طرح رہزنی کی عادت ان میں رواج پا گئی۔
غرور، تکبر اور سرکشی ابلیس کی طرزِ فکر کا خاصہ ہے۔ اہلِ سُدوم نے جب اس طرزِ فکر کو قبول کر لیا تو ان کے اندر طرح طرح کی برائیاں پیدا ہو گئیں۔ حرص، لالچ، بُغض، عِناد، کینہ، زر پرستی، دل آزاری، بداخلاقی اور فِسق و فُجور میں وہ لوگ مبتلا ہو گئے۔ اہلِ سُدوم جب پوری طرح ابلیس کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گئے تو ان کے ذہنوں میں شیطنت راسخ ہو گئی اور وہ انہی طرزوں میں سوچنے لگے۔ جن طرزوں پر عمل پیرا ہو کر انسان مجسمۂِ شر اور فساد بن جاتا ہے۔ ذاتی منفعت اور آسائش و عشرت کے حصول میں وہ اس قدر اندھے ہو گئے کہ شرفِ انسانیت کی طرزیں ان کے اندر سے مَعدوم ہو گئیں۔ دوسروں کو نقصان پہنچا کر، دل آزاری کر کے انہیں خوشی اور راحت محسوس ہوتی اور اس کے لئے وہ نت نئے طریقے اختیار کرتے۔ اس طرزِ فکر پر کاربند رہنے کی بناء پر اہلِ سُدوم گمراہی اور ذلت کے تاریک گڑھے میں اترے چلے گئے۔ بد اَطوار قوم نے بداعمالیوں اور فواحش کی فہرست میں ایک ایسے عمل کا اضافہ کر دیا جو اس قوم کی بدکاری کے سبب صفحہ ہستی سے نابود کئے جانے کے لئے عذاب الٰہی کی بنیاد بن گیا۔
نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے قدرت کا مقررہ کردہ طریقہ چھوڑ کر عورتوں کے بجائے مردوں اور لڑکوں سے اختلاط رکھنا اس قوم کا دستور بن گیا۔ شرافت اور انسانیت کا شائبہ تک اہلِ سُدوم میں باقی نہ رہا۔ خباثت اور بے حیائی کی انتہا یہ تھی کہ عوام الناس سے لے کر قوم کے سردار اور حاکم تک اس اخلاق سوز عمل کو عیب نہیں گردانتے تھے بلکہ علی الاعلان فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے تھے اور بھری محفلوں میں ناپسندیدہ حرکات دہراتے تھے۔
قرآن میں اس بستی اور اس کے باشندوں کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔
’’بستی، جہاں کے لوگ گندے کام کیا کرتے تھے وہ برے اور بدکردار لوگ تھے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء)
حضرت لُوط علیہ السلام اسی قوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے۔ آپ نے اہلِ سُدوم کی بے حیائیوں اور خباثتوں کی ملامت کی۔ ان کے اندر موجود اخلاقی برائیوں کی نشاندہی کی اور ان برائیوں سے نجات پانے کے طور طریقوں کی تبلیغ کی۔ قوم کو گمراہی اور ظلمت کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے ربّ کائنات کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور شرافت اور پاکیزگی کے اعمال اپنانے کی ترغیب دی۔ اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے ہدایت و نصیحت کا یہ ترغیبی پروگرام قوم پر بہت شاق گزرا۔ مٹی کی چپک اور مٹی سے تخلیق پانے والے مظاہر کی کشش نے ان کے حواس کو اپنی گرفت میں اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ وہ اس بدمستی کی کیفیت سے نکلنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ حضرت لُوط علیہ السلام سے متنفّر رہنے لگے اور ان کی نصیحت آموز باتوں کو اپنی عیش و عشرت کی زندگی کے لئے ایک رکاوٹ تصوّر کرنے لگے۔
سورۃ الاعراف میں دعوتِ حق کے جواب میں اہلِ سُدوم کا ردِّ عمل بیان ہوا ہے:
’’اور کچھ جواب نہ دیا اس کی قوم نے مگر یہی کہا نکالو ان کو اپنے شہر سے یہ لوگ ہیں ستھرائی چاہتے۔‘‘
سُدوم اور عمورہ کی سرزمین پر آباد نوع انسانی کا یہ سرکش گروہ نافرمانی، بے حیائی اور اخلاق سوز کاموں پر مُصر رہا۔ اللہ کے فرستادہ بندے حضرت لُوط علیہ السلام نے انہیں ان کے ناپسندیدہ افکار کے باعث خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اعمال بد کے سبب نازل ہونے والے عذاب سے ڈرایا۔ قوم نے اس پند و نصائح کا اثر قبول کرنے کے بجائے حضرت لُوط علیہ السلام کا تمسخر اڑایا اور نافرمان اقوام کے طرز عمل کو دہراتے ہوئے غرور اور تکبر اور سرکشی کا اظہار کیا۔ بستی کے لوگ حضرت لُوط علیہ السلام کو دیکھتے تو آوازیں کستے:
’’اے لوط! ہمارے اعمال سے تیرا خدا اگر ناراض ہے تو عذاب لا کر دکھا جس کا ذکر کر کے تو ہمیں باربار ڈراتا ہے۔‘‘
حضرت لُوط علیہ السلام کو جب یقین ہو گیا کہ یہ لوگ ہدایت کی راہ اختیار نہیں کریں گے تو انہوں نے ربُّ العزّت کی بارگاہ میں اِستدعا کی:
’’اے ربّ! مجھے ان مُفسِد لوگوں پر غالب کر دے۔‘‘
مُفسِد اور شریر لوگوں پر فتح و نصرت کی دعا قبول ہوئی۔ بستی والوں کے اعمال کے سبب بارگاہِ الٰہی سے حکم ہُوا کہ اہلِ سُدوم کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ بستیوں کو ان کے مکینوں سمیت الٹنے کے لئے فرشتوں کی ایک جماعت مقرر ہوئی۔ یہ فرشتے انسانی روپ میں ظاہر ہوئے۔ پہلے یہ جماعت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچی اور ان کو حضرت اسحٰق علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری دی اور اہلِ سُدوم کی ہلاکت کی اطلاع دی۔ فرشتوں کی یہ جماعت جب حضرت لُوط علیہ السلام کے پاس پہنچی تو رات کا وقت تھا۔ انہوں نے حضرت لُوط علیہ السلام کے گھر والوں سے اپنا تعارف مہمانوں کی حیثیت سے کروایا۔ فرشتے انسانی روپ میں تھے اور ملکوتی حسن اُن سے ہُوَیدا تھا۔ حضرت لُوط علیہ السلام کی بیوی گمراہ قوم کی ہم خیال تھیں۔ اس نے مہمانوں کی آمد کی اطلاع اہلِ سُدوم کو کر دی۔ لوگ حضرت لُوط علیہ السلام کے گھر کے باہر جمع ہو گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ یہ مہمان ہمارے حوالے کر دیئے جائیں۔
حضرت لُوط علیہ السلام نے انہیں اس وقت بھی نصیحت کی اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا لیکن اہلِ سُدوم پر جنون سوار تھا۔ انہوں نے حضرت لُوط علیہ السلام کی ایک نہ سنی۔ یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے حضرت لُوط علیہ السلام پر حملہ کر کے انہیں مَضروب کر دیا۔ اس وقت حضرت لُوط علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں اِستدعا کی:
’’اے میرے رب! مجھے اور میرے متعلقین کو ان کے کاموں سے نجات دے۔‘‘ (سورۃ الشعراء)
اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں نے حضرت لُوط علیہ السلام کو تسلی دی۔
’’اے لُوط! ہم بھیجے ہیں تیرے ربّ کے، ہرگز نہ پہنچ سکیں گے تجھ تک، سو لے نکل اپنے گھر والوں کو کچھ رات سے اور مڑ کر نہ دیکھے تم میں سے کوئی مگر تیری عورت، یوں ہی ہے کہ اس پر پڑناہے جواُن پر پڑے گا، اُن کے وعدے کا وقت ہے صبح۔ کیا صبح نہیں نزدیک۔‘‘ (سورۃ ہُود)
حضرت لُوط علیہ السلام فرشتوں کی ہدایت کے مطابق اپنے متعلقین کے ہمراہ سُدوم سے رات کے وقت نکلے اور اس وادی سے ایک طرف ’’زغر‘‘ نامی مقام پر پہنچ گئے۔
صبح کے نزدیک ایک ہولناک آواز بلند ہوئی اور اہلِ سُدوم کے حواس معطل ہو گئے۔ آسمان سے ان پر کنکر اور پتھر برسائے گئے اور تمام بستیاں ان کے مکینوں سمیت الٹ دی گئیں۔ حضرت لُوط علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جس مقام پر موجود تھے، وہ عذابِ الٰہی سے محفوظ رہا۔
توریت کے باب پیدائش میں اس عذاب کا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔
’’تب خداوند نے اپنی طرف سے سُدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی اور اس نے ان شہروں کو اور اس ساری ترائی کو اور ان شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اگا تھا، غارت کر دیا۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ بحر مردار جو اب سمندر نظر آتا ہے، کسی زمانے میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے۔ سُدوم اور عمورہ کی آبادیاں اسی مقام پر تھیں۔ یہ مقام شروع میں سمندر نہ تھا۔ جب اہلِ سُدوم پر عذاب نازل ہوا تو شدید زلزلوں کے باعث یہ زمین چار سو میٹر سطح سمندر سے نیچے چلی گئی اور یہاں پانی ابھر آیا۔
قرآن حکیم سمیت تمام الہامی کتابوں میں مذکور یہ واقعہ نوع انسانی کو درس عبرت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا ہو۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ شیطنت کے پیروکاروں کو زندگی میں سکونِ قلب کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ مُکافاتِ عمل کا یہ قانون ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک رنگ و بو کی اس دنیا سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا۔ جب تک وہ مُکافاتِ عمل کا کفارہ ادا نہیں کر دیتا۔
کیا کوئی بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ خیانت اور بددیانتی سے اس کی مسرت میں اضافہ ہوا ہو؟
کیا کوئی آدمی متعفن اور سڑی ہوئی غذا کھانے کے بعد بیماریوں، پریشانیوں اور بے چینی سے محفوظ رہ سکتا ہے؟
کیا سیاہ کارانہ طرزِ زندگی اپنا کر اِرادوں میں کامیابی ممکن ہے، ایسی کامیابی جس کامیابی کو حقیقی کامیابی اور مستقل کامیابی کہا جا سکے؟
ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ برے کام کا نتیجہ برا مرتب ہوتا ہے اور اچھے کام کا نتیجہ اچھائی میں ظاہر ہوتا ہے۔
اس اصول کو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فلاح خیر میں ہے اور شر کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
یہی قانون اجماحعی زندگی کا ہے۔ اجتماعی طور پر اگر معاشرہ منافقانہ زندگی میں مبتلا ہو جائے تو ا س کا نتیجہ بھی اجتماعی تباہی مرتب ہوتا ہے۔
تباہی کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بسا اوقات ہم ایک برائی کو بہت کم تر اور معمولی سمجھتے ہیں لیکن حقیر نظر آنے والی یہی برائی جب بیج بن کر نشوونما پاتی ہے اور درخت بن جاتی ہے تو اس درخت کے پتے، کانٹے، کریہہ رنگ پھول، خشک سیاہ اور کھردرے پتے، بجھی بجھی سی اور بے رونق شاخیں پوری نوع کو غم آشنا کر دیتی ہیں اور پھر یہ غم ضمیر کی ملامت بن کر مہلک بیماریوں کے ایسے کنبے کو جنم دیتا ہے جس سے آدمی بچنا بھی چاہے تو بچ نہیں سکتا۔ اگر ہم واقعتاً حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور تفکر کو اپنا شعار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں جاننا ہو گا کہ خیر و شر کے تمام مراحل ایک کنبہ کے افراد کی طرح زندہ اور مُتحرّک ہیں۔ نیکی کا درخت رحمت و برکت کا سایہ ہے اور بدی کا درخت خوف اور پریشانی اور رنج و ملال کی کیفیات کو نوع انسانی پر مسلّط کر دیتا ہے۔
غصّہ، نفرت، تفرّقہ، بُغض و عِناد اس مشن کا تشخص ہے جو بارگاہِ ایزدی سے مَعتوب اور گم کردہ راہ ہے۔ یہ مشن کبر و نَخوت، ضد اور ذاتی طور پر غرور کا پرچار کرتا ہے۔ اس کردار میں وہ تمام عوامل کارفرما ہیں جن سے بندہ اللہ سے دُور ہو جاتا ہے۔ اس کے اوپر تاریکی گھٹا بن کر چھا جاتی ہے۔ اَدبار اور آلام و مصائب اس طرح مسلّط ہو جاتے ہیں کہ یہ خود اپنی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔
ظاہر دنیا کی ہر آسودگی میسر ہوتی ہے لیکن دل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے تعفن سے روح کے اندر لطیف انوار اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں اور جب قطع و برید کی یہ عادت مزمن ہو جاتی ہے تو انوار کا ذخیرہ پس پردہ چلا جاتا ہے اور اللہ کے ارشاد کے مطابق دلوں پر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر دبیز اور گہرے پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہ محرومی اس کو نہ صرف یہ کہ دنیا میں امن و سکون سے دور کر دیتی ہے بلکہ ایسا بندہ ازلی سعادت اور عرفان حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
نیکی اور بدی کا جب تذکرہ آتا ہے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر عمل کے پس پردہ کوئی نہ کوئی طرزِ فکر کام کر رہی ہے اور طرزِ فکر کی بنیاد پر ہی کسی گروہ، کسی ذات کسی برادری اور کسی کردار اور کسی شخص کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کا کردار بھی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ثبت ہے جنہوں نے پیغمبروں کی مخالفت کی اور انہیں قتل کیا۔ تاریخ کے صفحات میں ایسے لوگوں کا کردار بھی موجود ہے جن میں سخاوت عام ہے اور ایسے کردار بھی موجود ہیں جن میں کنجوسی اور بخیلی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ کنجوسی اور بخیلی کے کردار کا باوا آدم قارون ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی قارون کی ذُریّت اور قارون کے کردار سے متاثر لوگ موجود رہیں گے اور جب تک دنیا موجود ہے سخی لوگ موجود رہیں گے۔ دنیا میں پیغمبروں کے کردار کے حامل لوگ بھی موجود ہیں۔ پیغمبروں کے کردار کو جب ہم خودبین نظروں سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی یعنی وہ ایسے کردار سے مستفیض ہیں جس کردار میں لطافت و حلاوت کے علاوہ کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہے۔
کردار کے تعین میں دو طرزیں بنتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی شیطنت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آدمی سراپا رحمت بن کر اللہ کی بادشاہت میں نمائندہ بن جاتا ہے۔
وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ سے دُور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں… اور
وہ تمام طرزیں جو بندہ کو اللہ سے قریب کرتی ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں…
پیغمبرانہ طرزوں اور شیطانی طرزوں کو تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ رحمانی طرزوں میں داخل ہو جاتا ہے اس کے اندر پیغمبروں کے اَوصاف منتقل ہو جاتے ہیں۔ پیغمبروں کے اَوصاف اللہ کے اَوصاف ہیں۔ یعنی:
جب کوئی بندہ پیغمبرانہ زندگی میں سفر کرتا ہے تو دراصل وہ ان صفات میں سفر کرتا ہے جو اللہ کی ذاتی صفات ہیں… اور
جب کوئی بندہ پیغمبرانہ صفات سے منہ موڑ لیتا ہے تو ان راستوں میں بھٹکتا پھرتا ہے جو تاریک اور کثافت سے معمور ہیں۔
شیطانی طرزِ فکر یہ ہے کہ آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلّط رہتا ہے۔ ایسا خوف اور غم جو زندگی کے ہر قدم کو ناقابل شکست و ریخت زنجیروں میں جکڑے رکھتا ہے۔ دن ہو یا رات ہر لمحہ خوف میں بسر ہوتا ہے۔ کبھی اسے زندگی ضائع ہونے کا غم ہوتا ہے کبھی وہ معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ کبھی اس کے اوپر بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ کبھی وہ مسائل کے انبار میں اس طرح دَب جاتا ہے کہ اسے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ موت اس کے اوپر خوف بن کر مسلّط ہو جاتی ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ موت سے کسی بھی طرح رَستگاری ممکن نہیں ہے۔
اللہ کریم ہمیں پیغمبرانہ طرزوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور گمراہ و مغضوب لوگوں کی طرزِ فکر اپنانے سے بچالے۔ آمین یا ربّ العالمین!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 11 تا 20

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)