حضرت آمنہ رملیہؒ
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2719
حضرت آمنہ رملیہؒ بغداد کے ایک نواحی شہر رملہ میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے ذہین اور علم حاصل کرنے کی شوقین تھیں۔ جب بڑی ہوئیں تو والدہ کے ساتھ حج کے لئے مکہ معظمہ گئیں۔ وہاں ایک بزرگ مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ حضرت آمنہؒ ان کی شاگرد ہو گئیں۔ اور ان سے قرآن اور احادیث کا علم حاصل کرتی رہیں۔
بزرگ کے انتقال کے بعد حضرت آمنہ رملیہؒ مدینہ منورہ آ گئیں۔ مدینہ میں امام مالکؒ کی شاگرد بن گئیں۔ ان سے تقریباً سو(۱۰۰) احادیث مروی ہیں۔
تحصیل علم کے بعد مدینہ منورہ سے دوبارہ مکہ معظمہ آ گئیں اور امام شافعیؒ کی شاگرد ہو گئیں۔ اس وقت ان کی عمر ۳۶ سال تھی۔ جب امام شافعیؒ مصر تشریف لے گئے تو آپ کوفہ چلی گئیں۔ حضرت آمنہؒ نے ذوق و شوق سے وہاں کے علماء سے بھی کسب فیض کیا اور تمام علوم دینی میں ماہر ہو گئیں۔ جب کوفہ سے وطن واپس آئیں تو ان کے علم و فضل کا چرچا اور دور تک پھیل چکا تھا۔ انہوں نے علم پھیلانے کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا۔ جہاں علم کے متلاشی لوگ جوق در جوق آنے لگے۔ بڑے بڑے علماء حدیث، درس میں شریک ہوئے تھے۔
بغداد میں ایک درویش کامل کی توجہ نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ آپ نے اپنا مال و اسباب راہ خدا میں لٹا دیا اور درویشانہ زندگی اختیار کر لی۔ زیادہ وقت عبادت الٰہی اور گریہ و زاری میں مشغول رہتیں۔
حضرت آمنہؒ نے پیدل چل کر سات حج کئے۔ ان کے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی بناء پر لوگ ان کو خاصان خدا میں شمار کرتے تھے اور ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے۔
عظیم المرتبت ولی اللہ حضرت بشرحانیؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضرت احمد بن جنبلؒ بھی ان کی عظمت و جلالت کے معترف تھے۔
ایک دفعہ حضرت بشرحانیؒ بیمار ہوئے تو حضرت آمنہؒ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئیں۔ امام احمد حنبلؒ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے حضرت بشرحانیؒ سے پوچھا:
“یہ خاتون کون ہیں؟”
بشرحانیؒ نے جواب دیا:
“یہ آمنہ رملیہؒ ہیں۔ مزاج پرسی کے لئے آئی ہیں۔”
امام صاحبؒ نے ان کی شہرت سن رکھی تھی ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور حضرت بشرحانیؒ سے فرمایا:
“ان سے کہئے کہ میرے لئے دعا کریں۔”
حضرت بشرؒ نے حضرت آمنہؒ سے عرض کیا:
“یہ احمد بن جنبلؒ ہیں۔ آپ سے دعا کے خواستگار ہیں۔”
حضرت آمنہؒ نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خشوع و خضوع سے دعا مانگی۔
“اے اللہ! احمد بن جنبلؒ اور بشرؒ دونوں جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ان کو اس آگ سے محفوظ رکھ۔”
ایک دفعہ کسی رئیس نے دس ہزار اشرفیاں آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے انکار کر دیا۔ جب بہت اصرار کیا تو رکھ لیں اور منادی کرا دی کہ جس کو روپے کی ضرورت ہو وہ مجھ سے لے جائے۔ چنانچہ حاجت مند لوگ آتے تھے اور بقدر ضرورت رقم لے جاتے تھے۔ شام تک تمام اشرفیاں ختم ہو گئیں۔
حضرت بشرحانیؒ فرماتے ہیں کہ آمنہؒ کا معمول تھا کہ پوری رات سے صبح تک عبادت الٰہی میں مصروف رہتیں۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت بشرحانیؒ سے فرمایا:
“اے بشر! میرا جسم سوتا ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔”
حکمت و دانائی
* ولی سوتا ہے اس کا دل بیدار رہتا ہے۔
* علم پھیلانے کے ہر قسم کی کوشش کرنا فرض ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 153 تا 155
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔