حسبِ خواہش نتیجہ نہ ملنا
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13353
سوال: کوشش اور جدّ و جہد کے باوجود حسب دلخواہ نتائج حاصل نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب: قانون قدرت یہ ہے کہ جب کوئی بندہ جدّ و جہد اور کوشش کرتا ہے اور اس جدّ و جہد اور کوشش کا ثمر کسی نہ کسی طرح اللہ کی مخلوق کے کام آتا ہے تو وسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ زمین پر اللہ نے جتنی بھی اشیاء تخلیق کی ہیں ان کے اندر بے شمار صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ کوشش سے جب ان اشیاء کے اندر صلاحیتوں کو متحرّک کر دیا جاتا ہے یا ان اشیاء میں محفوظ مخفی صلاحیتوں کا کھوج لگایا جاتا ہے تو ایجادات کے بے شمار راستے کھل جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے لوہا تخلیق کیا۔ مِن حَیثُ القَوم یا انفرادی طور پر جب لوہے کی صفات اور لوہے کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگایا جاتا ہے تو لوہے سے لوگوں کے لئے بے شمار فائدے حاصل ہو جاتے ہیں۔
سائنسی ترقی میں مشکل سے کوئی ایسی چیز ملے گی جس میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا عمل دخل نہ ہو۔
علمائے باطن اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ انفرادی زندگی اور قومی زندگی لوحِ محفوظ پر نقش ہے۔ انفرادی حدود میں کوئی بندہ جب کوشش اور جدّ و جہد کرتا ہے تو اس بندہ کے اوپر انفرادی فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ قومی اعتبار سے ایک، دو، چار، دس بندے جب تک کوشش کرتے ہیں تو اس جدّ و جہد اور کوشش سے پوری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ لائے۔‘‘ (القرآن)
جو قومیں خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشش کرتی ہیں ان کو ایسے وسائل فراہم کر دیئے جاتے ہیں جن سے وہ معزز اور محترم بن جاتی ہیں اور جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں وہ محروم زندگی گزارتی ہیں۔
بندہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کو اگر صحیح سمتوں میں استعمال کرتا ہے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اگر غلط طرزوں میں استعمال کرتا ہے تو منفی نتائج مرتّب ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اللہ کے عطا کردہ اختیارات کو اسی طرح استعمال کرے کہ جس سے اس کی اپنی فلاح اور اللہ کی مخلوق کی فلاح کا سامان میسر ہو۔ اللہ خالق ہے، ربّ ہے اور ربوبیّت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کے انعامات اور اکرامات اور اللہ کے پیدا کئے ہوئے وسائل سے ساری مخلوق فائدہ اٹھائے۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ:
دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ریکارڈ ہے۔ اس ریکارڈ میں لوگوں کا عروج و زوال بھی لکھا ہوا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ…
قومیں اگر صحیح طرزوں میں عمل زندگی بسر کریں گی تو ان کو عروج نصیب ہو گا اور….
اگر غلط طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو غلام بنا دی جائیں گی۔ ذلیل و خوار ہو جائیں گی۔
ترقی اور تنزّل جب زیر بحث آتا ہے تو ذہن اس طرف متوجّہ ہوتا ہے کہ آخر ترقی یا تنزّل میں کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ انفرادی یا اجتماعی جدّ و جہد کے نتیجہ میں ترقی نصیب ہوتی ہے اور انفرادی یا اجتماعی تساہل اور عیش پسندی کے نتیجے میں قومیں عروج کے بجائے زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
ترقی کے دو رخ ہیں۔ ترقی یا عزت و توقیر کی ایک حالت یہ ہے کہ کسی فرد یا کسی قوم کو دنیاوی عزت اور دنیاوی دبدبہ اور دنیاوی شان و شوکت نصیب ہو۔ ترقی کا دوسرا رخ جو فی الواقع حقیقی رخ ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ظاہری حالت میں رہتے ہوئے مخفی دنیا میں جس فرد یا قوم کی رسائی ہوتی ہے وہی اصلی ترقی ہے۔
بے شک وہ قومیں جنہوں نے علوم میں تفکر کیا اور جدّ و جہد کے بعد نئی نئی اِختراعات کی ہیں وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینانِ قلب سے محروم ہیں۔ قلبی اطمینان اور روحانی سکون سے اس لئے محروم ہیں کہ حقیقت سے ان کا واسطہ یا تعلق نہیں ہے۔ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت کے اوپر کبھی خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلاتے، حقیقی دنیا سے متعارف لوگ ہمیشہ پر سکون رہتے ہیں۔ موجودہ دَور بے شک ترقی کا دور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں، پریشانیاں، بے سکونی اور ذہنی انتشار سے نَوعِ انسانی دوچار ہوئی ہے اس کی نظیر پہلے کے دَور میں نہیں ملتی۔ اس ترقی کے پیچھے انفرادی ہو یا قومی، ذاتی منفعت اور دولت پرستی ہے۔ اور جب ترقی خالصتاً نَوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہے تو قوموں کو اطمینان اور سکون نصیب ہوتا ہے۔
انفرادی یا اجتماعی ذہن کا تعلق طرزِ فکر سے ہے۔ طرزِ فکر میں اگر یہ بات ہے کہ ہماری کوشش اور اِختراعات سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے گا تو یہ طرزِ فکر انبیاء کی طرزِ فکر ہے اور یہی طرزِ فکر اللہ کی طرزِ فکر ہے۔
اللہ کی طرزِ فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں چاہتا۔ بندہ جب اختیاری طور پر اس طرزِ فکر کو اختیار کر لیتا ہے کہ وہ ہرحال میں اللہ کی مخلوق کے کام آئے تو اسے ماورائی شعور منتقل ہو جاتا ہے اور ماورائی شعور میں بندہ کا ذہن ہر آن، ہر لمحہ اس طرف متوجّہ رہتا ہے کہ میں وہ کام کر رہا ہوں جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔ بار باراس عادت یا عمل کا اعادہ ہونے سے پہلے اس کے مشاہدات میں یقین شامل ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے جو کچھ ہو چکا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔
’’ہر شئے اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔‘‘ (القرآن)
اس دنیامیں ہر انسان پابند بھی ہے اور بااختیار بھی۔ انسان وہی غذا کھاتا ہے جو اس کے لئے مقرر ہے۔ قوانین کائنات اس کے اوپر محیط ہیں۔ کوئی انسان اس بات پر اختیار نہیں رکھتا کہ سورج کو طلوع ہونے یا غروب ہونے سے منع کر دے۔ کسی انسان میں یہ جرأت بھی نہیں ہے کہ بارش برسانے کا دعویٰ کر سکے۔ وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتا۔ انسانی ایجادات بھی اللہ تعالیٰ ہی کی کسی نہ کسی تخلیق کی محتاج ہیں۔ سائنس ترقی کی کسی منزل پر بھی پہنچ جائے، سائنسدان موت کے شکنجہ سے آزاد نہیں ہے۔
اے انسان!۔۔۔۔۔۔غور کر۔
تیرا جینا، تیرا مرنا سب اللہ کے کرم کا محتاج ہے۔ تُو کیوں خالق و مالک اللہ سے رجوع نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔؟
کون نہیں جانتا جو پیدا ہوا ہے اسے کچھ وقت اس دنیا میں گزار کر رخصت ہو جانا ہے۔ جب تک اس دنیا میں ہے مسافروں کی طرح قیام کر چاہے باپیادہ چل۔ چاہے ہوائی جہازوں میں پرواز کر۔ زمین پر اللہ کا دسترخوان بچھا ہوا ہے۔ شہر کے ایک سرے پر چٹنی رکھی ہوئی ہے اور شہر کے دوسرے کنارے پر پلاؤ، قورمہ، دسترخوان پر سجا ہوا ہے۔ کم ہمت لوگ چٹنی پر گزارہ کر لیتے ہیں اور باہمت افراد اللہ کی پھیلائی ہوئی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جدّ و جہد کرتے ہیں۔ ایک قانون اور ضابطے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔وسائل انسان کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آسمانوں اور زمین میں ہر شئے انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔‘‘
جوئندہ پائندہ
(جو کوشش کرتا ہے۔ پالیتا ہے)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 256 تا 259
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔