تقاضے کہاں بنتے ہیں

مکمل کتاب : پیرا سائیکالوجی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=7925

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اس کا تانا بانا اُن اجزاء پر مشتمل ہے۔ جن سے خود آنکھ بنتی ہے۔ آنکھ کا دیکھنا ایک صفَت ہے جس کو جتنا زیادہ صاف اور شفاف کر لیا جائے اسی مناسبت سے آنکھ کسی چیز کو واضح اور روشن دیکھتی ہے۔ صحت مند آنکھ جتنے عکس قبول کرتی ہے۔ ان کے خدوخال زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ بیمار آنکھ جتنے عکس قبول کر کے دماغ کی سکرین پر پھینکتی ہے بیماری کی مناسبت سے اسی قدر عکس دھندلا اور غیر واضح ہوتا ہے۔ آنکھ کی ایک بیماری یہ ہے کہ آنکھ کے اندر موجود لینس (جس لینس کے اوپر عکس کو قبول کرنے کا دارومدار ہے) اگر ناکارہ ہو جائے تو آنکھ عکس کو قبول نہیں کرتی۔کیمرہ کتنا ہی اچھا اور قیمتی ہو اگر اس کے اندر لگا ہوا لینس خراب ہے تو تصویر اچھی نہیں بنتی۔
انسانی جسم دو ہیں۔
① انسان کا ایک جسم ایسا ہے جس کے اندر جگہ جگہ خراشیں پڑی ہوئی ہیں۔ ہر عضو ٹوٹا ہوا ہے ہر جوڑ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ایسا جسم ناکارہ، بدصورت اور بدہئیت ہوتا ہے۔
② انسانی جسم کی طرح انسان کے اوپر ایک اور جسم ہے جو گوشت پوست کے جسم کے اوپر روشن اور لطیف جسم ہے۔ اس جسم کے بہت سے نام ہیں، بے شمار ناموں میں دو نام زیادہ مشہور ہیں ایک جسمِ مثالی، دوسرا نسمہ (Aura)۔
انسانی گوشت پوست کے جسم کا دارومدار نسمہ (Aura) کے اوپر ہے۔ نسمہ (Aura) اگر صحت مند ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی صحت مند ہے۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح گوشت کے جسم میں دو لینس فٹ ہیں جن کے ذریعے مادی دنیا میں موجود تمام چیزوں کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہو کر ڈسپلے ہوتا ہے اسی طرح جسمِ مثالی کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کا تمام تر اثر گوشت پوست کے جسم پر مرتّب ہوتا ہے۔ روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم صرف انسان کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ زمین کے اوپر جتنی مخلوق موجود ہے سب ہی اس روشنیوں کے جسم (Aura) کی ذَیلی تخلیق ہیں۔
اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ انسانی زندگی میں جتنے تقاضے موجود ہیں یہ تقاضے گوشت کے جسم میں پیدا نہیں ہوتے۔ جسمِ مثالی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہاں سے منتقل ہو کر گوشت پوست کے جسم پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی روٹی کھاتا ہے تو بظاہر ہم دیکھتے ہیں کہ گوشت پوست کا آدمی روٹی کھا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ جب تک جسمِ مثالی کے اندر بھوک کا تقاضہ پیدا نہیں ہو گا اور جسمِ مثالی گوشت پوست کے جسم کو بھوک یا پیاس کا عکس منتقل نہیں کرے گا آدمی روٹی نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آئے۔ ذرا سے تفکر سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔
جسمِ مثالی کے بہت سے پرت ہیں۔ جب ہم خواب کے حواس میں دنیا بھر کی سیر کرتے ہیں اور تمام وہ اعمال و اشغال ہم سے سرزد ہوتے ہیں جو ہم گوشت پوست کے جسم کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ جسمِ مثالی کی وہ حرکت ہے جو گوشت پوست کے جسم کو میڈیم بنائے بغیر کرتا ہے۔
جسمِ مثالی کی حرکات و سکنات کے تأثرات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ تمام آسمانی صحائف نے خوابوں کو مستقبل بینی کا ایک روشن ذریعہ بتایا ہے۔ مستقبل بینی سے مراد ٹائم اسپیس سے ماوراء اس عالَم میں دیکھ لینا ہے جو عالَم ہماری مادی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔
روشنی کا جسم (Aura) اگر مٹی کے ذرّات سے اپنا رشتہ منقطع کر لے تو یہ ذرّات فنا ہو جاتے ہیں۔
صاحب مراقبہ جب پہلی سیڑھی سے قدم اٹھا کر دوسری سیڑھی پر رکھتا ہے تو اس کے سامنے جسمِ مثالی آ جاتا ہے اور اس کے اندر یقین کا وہ پیٹرن کھل جاتا ہے جو جانتا ہے کہ مٹی کے ذرّات سے بنے ہوئے گوشت پوست کی حیثیت محض عارضی اور فانی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ مرنے والے آدمی کے جسم کے اوپر جو روشنیوں کا جسم ہے اس نے عارضی مادی جسم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے….. یعنی مرنے سے مراد یہ ہے کہ مٹی کے ذرّات سے بنے ہوئے گوشت پوست کے آدمی کے اوپر روشنیوں کا جسم اس عالَمِ آب و گل سے رشتہ منقطع کر کے اس عالَمِ رنگ و نور میں منتقل ہو گیا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 110 تا 113

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)