تدلّیٰ اور علم الاسماء
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12709
سوال: اسلامی تصوّف میں تخلیقی فارمولوں کے ضمن میں ’’تدلّیٰ‘‘ کی اصطلاح بیان ہوئی ہے۔ تدلّیٰ سے کیا مراد ہے؟ تدلّیٰ اور علم الاسماء میں کیا فرق ہے؟
جواب: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں آدم علیہ السّلام کی نیابت و خلافت کا تذکرہ کیا ہے وہاں بنیادی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ آدم علیہ السّلام کو علم الاسماء عطا کیا گیا ہے۔ جو کائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہے۔ علم الاسماء ہی کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔ علم الاسماء کی حیثیت میں جو علم آدم علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وُدیعت کیا گیا ہے اس کو روحانی زبان میں ’’تدلّیٰ‘‘ کہتے ہیں۔
انسان کا شرف یہ ہے کہ وہ اللہ کریم کا نائب ہے اور وہ نیابت کے علوم سے واقف ہے۔ اسے بحیثیت انسان کے اللہ تعالیٰ کے اختیارات حاصل ہیں۔ جب کوئی روحانی علوم کا طالب علم اپنے مرشد کی ہمت و نسبت سے نیابتی اختیارات کو جاننے، سمجھنے اور استعمال کرنے کے علوم کو حاصل کرتا ہے تو اسے یہ علم ہو جاتا ہے کہ اللہ کریم کا ہر اسم دراصل اللہ کی ایک صفَت ہے اور یہ صفَت ہر بندے کو اللہ کی طرف سے ازل میں حاصل ہوئی تھی۔ بندے سے مراد نوعِ انسان اور نوعِ انسان کے تمام افراد ہیں۔
آدم کی اوّلاد جب صفَت تدلّیٰ کو حاصل کرنا چاہے تو اس کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ اللہ رحیم ہے اور رحیم صفاتی اعتبار سے تخلیق کرنے والی ہستی ہے۔ روحانی طالبِ علم اگر مراقبہ کے ذریعے اسمِ رحیم کی صفات کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے لاشعور میں کر لے تو اس کے اوپر وہ علوم منکشف ہو جاتے ہیں جو تخلیق میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ کریم نے اسی اسمِ رحیم کی صفَت کا یا تخلیقی علم کا تذکرہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت سے کیا ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام مٹی کے جانور میں پھونک مار کر اڑا دیتے تھے یا پیدائشی کوڑھی یا اندھے کو اچھا کر دیتے تھے۔ اس عمل میں ان کے اندر اسمِ رحیم سے متعلق اللہ کی تخلیقی صفَت متحرّک ہو جاتی تھی۔ یا وہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے اسمِ رحیم کی صفَت کو عملاً جاری فرما دیتے تھے۔ اللہ کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس معجزے کا تذکرہ کر کے تخلیق کا ایک فارمولا بیان کیا ہے۔ تخلیقی فارمولا یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ کی روح کام کر رہی ہے۔ جب تک انسان کے اندر یا آدم زاد کے اندر روح موجود نہیں ہے آدم کا وجود بے حرکت مٹی کا پتلا ہے۔ یہی بات اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے کہی:
’’اور جب تو بناتا ہے مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے پھر اس میں پھونک مارتا ہے تو ہو جاتا ہے جانور۔‘‘
یعنی مٹی کے جانور میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تخلیقی فارمولے کے تحت یا اسمِ رحیم کی صفَت کے تحت پھونک مارتے تھے تو وہ اڑ جاتا تھا۔ پیدائشی اندھے اور کوڑھی کے اوپر دم کرتے تھے یا پھونک مارتے تھے تو بھلا چنگا ہو جاتا تھا۔ اللہ کریم کا یہ فیضان قرآن کریم کے ذریعے نوعِ انسان کے لئے عام ہے ۔ کوئی بھی انسان قرآن میں تفکر کر کے سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی نسبت سے اللہ کریم کے دیئے ہوئے تخلیقی اختیارات یا تدلّیٰ سے مستفیض ہو سکتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر انسان اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 174 تا 175
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔