بی بی قرسم خاتونؒ
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2751
شیخ العالم بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی والدہ بی بی قرسم خاتونؒ نے بیٹے کی تربیت اس طرح کی کہ بیٹا ولی اور خداشناس ہو گیا۔
بی بی قرسم خاتونؒ پوری رات عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ ایک رات بی بی قرسم خاتونؒ تہجد کی نماز پڑھ رہی تھیں کہ ایک چور گھر میں گھس آیا۔ بی بی صاحبہؒ نے نظر ڈالی تو چور اندھا ہو گیا، چور نے روتے ہوئے کہا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ چوری نہیں کرونگا۔ اسی وقت بصارت لوٹ آئی۔ اس نے بی بی صاحبہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی۔ اگلی صبح وہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر بی بی قرسم خاتونؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اہل و عیال سمیت مسلمان ہو گیا۔ آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کی عبادت و ریاضت کو قبول فرما کر اس کو مرتبہ ولایت عطا فرما دیا۔
بابا فرید گنج شکرؒ کی کمسنی میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور ان کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ بی بی قرسم خاتونؒ پر آ گئی۔ بی بی صاحبہ نے نہایت توجہ اور محنت سے اپنے صاحبزادے کی پرورش کی۔ بابا فریدؒ ابھی بچے تھے کہ ان کی والدہ عبادت کی ترغیب کے لئے روزانہ ان کی جائے نماز کے نیچے شکر کی ایک پڑیا رکھ دیتی تھیں اور کہتی تھیں:
“بیٹا جو بچے دل سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں روزانہ جائے نماز کے نیچے سے شکر ملتی ہے۔”
ایک دن والدہ صاحبہ شکر کی پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ جب انہیں خیال آیا تو بابا فریدؒ نماز پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا:
“بیٹا تم نے نماز ادا کر لی؟”
بابا فریدؒ نے ادب سے فرمایا:
“جی اماں جان! میں نے نماز ادا کر لی ہے اور شکر بھی کھالی۔”
یہ حال دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ بچے کے اندر یقین کا نور پیدا ہو گیا ہے اور اللہ کی بارگاہ سے لطف و اکرام بھی حاصل ہے ۔ اس دن سے انہوں نے اپنے بیٹے کو مسعود گنج شکرؒ کہنا شروع کر دیا۔
بابا فرید الدین مشعود گنج شکرؒ پاک پٹن میں تشریف فرما تھے۔ ایک دن شیخ نجیب الدین متوکل کو بلایا اور یہ فریضہ سونپا کہ وہ والدہ صاحبہ کو پاک پٹن لے آئیں۔ شیخ نجیب الدین بی بی قرسم خاتونؒ کو ساتھ لے کر پاک پٹن کی طرف عازم سفر ہوئے دوران سفر آرام کی غرض سے ایک درخت کے نیچے ٹھہرے، شیخ نجیب الدین پانی لینے کیلئے قریبی علاقے میں چلے گئے۔ واپس آئے تو بی بی صاحبہ کو موجود نہ پایا حیرانی اور اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر تلاش کیا لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ جب کوشش ناکام ہو گئی تو بابا فریدؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گمشدگی کا واقعہ عرض کیا۔
بابا فریدؒ نے فرمایا:
“کھانا تیار کرو اور غریبوں میں تقسیم کر دو۔”
ایک مدت گزرنے کے بعد شیخ نجیب الدین متوکلؒ کا گزر پھر اس علاقے سے ہوا جہاں بی بی قرسمؒ لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ایک جگہ شیخ نجیب کو چند انسانی ہڈیاں دکھائی دیں بعض قرائن سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے بی بی قرسم خاتونؒ کو کسی درندے نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے ہڈیاں جمع کیں اور ایک تھیلے میں رکھ کر بابا فریدؒ کے پاس پہنچے اور تمام حال بیان کیا۔ بابا فریدؒ نے جب تھیلی کو کھولا تو اس میں سے رنگ برنگے پھول برآمد ہوئے بابا فریدؒ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
حکمت و دانائی
* دنیا دار دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور دنیا اہل اللہ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
* وہ شخص نہایت بدقسمت ہے جس کے دل میں رحم کا جذبہ نہ ہو۔
* بے ادب خالق و مخلوق دونوں کا معتوب ہو جاتا ہے۔
* اللہ کے نزدیک بہترین صفت پرہیز گاری ہے۔
* بچوں سے پیار کرنا اللہ کی رحمت کی نشانی ہے۔
* سچی عبادت سے بری عادتیں ختم ہو جاتی ہیں۔
* موت کو یاد رکھنا تمام بیماریوں کا علاج ہے۔
* فقر کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب لینے سے دینا اچھا لگتا ہے۔
* صدر دروازے کو پکڑ لو باقی تمام دروازے کھل جائیں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 181 تا 183
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔