بی بی راستیؒ
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2798
بی بی راستیؒ فرغانہ کی شہزادی تھیں۔ حسن و جمال میں یکتا تھیں۔ حسن کا شہرہ سن کر آس پاس کی ریاستوں کے شہزادے، امراء شہزادی سے شادی کے خواہشمند تھے لیکن شہزادی کو کسی سے دلچسپی نہیں تھی۔ بی بی راستیؒ عام شہزادیوں سے بہت مختلف تھیں۔
انتہائی پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں، اپنی عبادت و ریاضت کے باعث وہ عالم ناسوت سے عالم ملکوت میں داخل ہو چکی تھیں۔
شہزادی کے والد سلطان جمال الدینؒ بھی ایک درویش صفت بزرگ تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔
ایک دن سلطان نے بیٹی سے شادی کے لئے بات کی تو شہزادی نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا:
“بابا حضور! جب اللہ کی مرضی ہو گی یہ کام بھی ہو جائے گا۔ آپ کیوں فکر مند ہوتے ہیں؟ ہمیں خدا کے حکم کا انتظار کرنا چاہئے۔”
بی بی راستیؒ اکثر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتی رہتی تھیں۔ قیام کے دوران خانہ کعبہ میں روزانہ عبادت کرتی تھیں۔ حسب معمول ایک دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں کہ ایک خوبصورت شخص کو دیکھا۔
نوجوان شخص کی پشت سے شعاعیں منعکس ہو رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ نور کا سیلاب ہو۔ شہزادی اس شخص کو غور سے دیکھتی رہیں۔ طواف ختم ہونے کے بعد نوجوان سے مخاطب ہوئیں:”کیا میں پوچھ سکتی ہوں آپ کا نام کیا ہے؟ اور آپ کہاں سے آئے ہیں؟”نوجوان نے کہا:”میرا نام صدر الدین ہے اور میں ملتان شہر کا رہنے والا ہوں۔”ہزادی نے پوچھا:”آپ بہاؤالدین ذکریاؒ کے شہر سے تشریف لائے ہیں؟””جی ہاں۔ میں ان کا بیٹا ہوں۔””کیا آپ شادی شدہ ہیں؟”نوجوان نے کہا۔ “نہیں۔”
شہزادی نے کسی قدر جھجکتے ہوئے کہا:”اگر آپ شادی کے خواہشمند ہوں تو میں ایک ایسے رشتے تک آپ کی رہنمائی کر سکتی ہوں جو آپ کے لئے مناسب رہے گا۔”صدرالدین نے کہا:”جہاں تک شادی کا تعلق ہے میرے والدصاحب ہی فیصلہ کرینگے۔ “شہزادی نے فوراً فرغانہ کا سفر شروع کر دیا اور فرغانہ پہنچ کر اپنے والد کو پورا واقعہ سنایا۔ والد سن کر خوش ہوئے کہ شہزادی کو کوئی تو پسند آیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ملتان کے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ ملتان پہنچنے پر حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ نے شاہی مہمانوں کا شاندار استقبال کیا۔ دوسرے دن دوران ملاقات سلطان جمال الدین نے حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ سے دلی خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی مخدوم زادے سے کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت بہاؤالدین نے فرمایا:”میرے بیٹے آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ آپ جسے چاہیں اپنی فرزندگی میں لے لیں۔”
سلطان جمال الدین نے سلطان صدر الدین کی طرف دیکھا اور بہاؤالدین ذکریاؒ سے کہا:”حضور میں صدر الدین کے لئے اتنی مسافت طے کر کے ملتان آیا ہوں۔”حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ نے اس رشتے کو قبول کر لیا اور اس طرح دونوں کی شادی ہو گئی۔
ہر مہینے کی چاند کی پہلی تاریخ کو حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ اپنی بہو بیٹیوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حسب معمول حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ کے تمام بہوئیں اور بیٹے حجرے میں داخل ہوئے اور سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب شہزادی راستیؒ کی باری آئی تو حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ ایک دم کھڑے ہو گئے اور تعظیماً تھوڑا سا جھک گئے۔ یہ دیکھ کر شہزادی راستیؒ نہایت شرمندہ ہوئیں اور نہایت عاجزی سے عرض کیا:”بابا! میں شرمند ہ ہوں میں اس تعظیم کے قابل نہیں ہوں، میں تو آپ کی خادمہ ہوں۔”
حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ نے فرمایا:”بیٹی یہ تعظیم ہم نے اس وجود کو دی ہے جو تمہارے بطن میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم اپنے دور کے قطب الاقطاب کی تعظیم میں کھڑے ہوئے ہیں۔”یہ سن کر راستی بی بیؒ نے خوشی سے اپنا سارا اثاثہ حاجت مندوں میں خیرات کر دیا۔
آخر ۹ رمضان ۶۴۹ بروز جمعہ حضرت رکن الدین عالمؒ پیدا ہوئے جن کے لئے بی بی راستیؒ نے برسوں سے امید لگا رکھی تھی اور جس کے لئے انہوں نے تخت و تاج چھوڑ دیا تھا۔
بی بی راستیؒ حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ کو دودھ پلانے سےپہلے بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم ضرور پڑھتی تھیں چونکہ خود حافظ قرآن تھیں اس لئے لوری کے بجائے قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ رکن الدین عالمؒ نے پہلا لفظ “اللہ” بولا تھا۔
حکمت و دانائی
* صادق وہی ہے جس کا صدق اقوال و احوال میں قائم رہے۔
* پھول بن جاؤ جسے مسل بھی دیں تب بھی اپنا رنگ اور خوشبو چھوڑ جاتا ہے۔
* دھول نہ بنو خود بھی آنکھیں ملو گے اور دوسرے بھی پریشان ہوں گے۔
* علم سیکھو جہاں سے بھی علم حاصل ہو۔
* مرشد سے غیر معمولی عقیدت مرید کو مرشد کا عکس بنا دیتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 240 تا 243
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔