بی بی جوہربراثیہؒ
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2660
بی بی جوہربراثیہؒ جوانی میں عباسی خلیفہ کی کنیز تھیں۔ ایک بار کسی درسگاہ کے سامنے سے گزریں تو دیکھا کہ ایک بزرگ بڑے وقار سے طلبہ کو درس دے رہے ہیں۔ آپ رک کر ان کا بیان سننے لگیں۔ بزرگ کی باتوں کا آپ کے اوپر اثر ہوا۔ محل میں واپس آ کر گوشہ نشین ہو گئیں اور خاموش رہنے لگیں۔ جب سکون نہ ملا تو محل چھوڑ کر جنگل میں چلی گئیں۔ ساتھی کنیزوں نے پوچھا کہ “امیر” آپ کے بارے میں پوچھیں تو کیا جواب دیں۔ بی بی جوہرؒ نے فرمایا:”اب میں اللہ کے علاوہ کسی کی کنیز نہیں۔ یہی بات امیر سے کہہ دینا۔”
ایک بار خلیفہ نے انہیں دس ہزار دینار بھیجے۔ انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ دنیا کا مال طبیعت میں تکبر اور رعونت پیدا کرتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ خلیفہ نے دوبارہ بیس ہزار دینار بھیجے اور کہا کہ اسے قبول کر لیں اور غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیں۔ پھر بھی جوہر براثیہؓ نے یہ دینار قبول کرنے سے انکار کر دیا اور قاصد سے کہا! امیر سے کہنا کہ میں ایک گوشہ نشین عورت ہوں اور نہیں جانتی کہ ان دیناروں کا مستحق کون ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ امیر المومنین جہاں بہتر سمجھیں یہ دینار تقسیم کر دیں۔
ایک بار حاکم وقت نے بی بی جوہر براثیہؓ سے درخواست کی کہ آپ ہمیں خدمت کا موقع دیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ شاہی محلات اور فقیر کی کٹیا میں بڑا فرق ہے۔ میں ایک سیدھی سادھی عورت ہوں اور کٹیا میں اپنے جیسے لوگوں کے درمیان رہنا مجھے پسند ہے۔
بی بی جوہرؒ درختوں، حیوانوں اور پرندوں سے باتیں کرتی تھیں۔ اکثر زخمی پرندے اور جانور آ کر آپ کے قریب بیٹھ جاتے تھے۔ آپ ان کا علاج کرتی تھیں۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتی تھیں۔ ان میں درندے بھی شامل تھے۔
حکمت و دانائی
* جس طرح رئیس کو محل میں آرام ملتا ہے اور کٹیا میں بے سکون رہتا ہے اسی طرح فقیر کو کٹیا میں سکون ملتا ہے اور محل میں ویرانی محسوس ہوتی ہے۔
* اللہ کی دوست کو جاہ و جلال اور مال و دولت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
* جب کوئی اللہ کا بن جاتا ہے تو دنیا اس کی محکوم بن جاتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 102 تا 103
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔