بی بی اُم علیؒ
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2759
بی بی ام علیؒ تیسری صدی ہجری میں بہت بڑی عارفہ گزری ہیں، مشہورو الی اللہ شیخ احمد خضرویہؒ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ ان کے والدین بہت مالدار تھے اور انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بے شمار دولت چھوڑی لیکن متوکل بیٹی نے اپنے عابد و زاہد شوہر کے ساتھ قناعت کی زندگی اختیار کی۔ آپؒ کے در سے کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔ آپ فرماتی تھیں:
“کامرانی کے مستحق وہی لوگ جو بخیلی اور تنگ دلی جیسے جذبات سے اپنے دل کو پاک رکھتے ہیں۔ اس بات کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا ہاتھ دینے والا بنایا ہے اور تم ان پوگوں میں شریک نہیں ہو جو محتاج اور نادار ہیں۔”
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
“قیامت کے دن جب کہیں سایہ نہیں ہو گا۔ خدا اپنے اس بندے کو عرش کے نیچے رکھے گا جس نے انتہائی مخفی طریقوں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو گا، یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو گی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔”
بی بی ام علیؒ حضرت بایزید بسطامیؒ اور شیخ ابو حفضؒ کی ہم عصر تھیں۔ حضرت بایزیدؒ فرمایا کرتے تھے:
“جو شخص تصوف کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے اندر ام علیؒ جیسی صفات پیدا کرے۔”
شیخ ابو حفضؒ کہتے ہیں کہ:
“میں عورتوں کو حقیر سمجھتا تھا مگر جب ام علیؒ کی باتیں سنیں تو مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی معرفت سے جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔”
حکمت و دانائی
* حاجت کا پورا نہ ہونا بے عزت ہونے سے بہتر ہے۔
* اللہ تعالیٰ نے بندوں پر انعامات کی بارش کی لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔
* جب بندے پر تکلیف یا پریشانی آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول کرتے ہیں، انہیں آرام پہنچاتے ہیں لیکن بندے یہی کہتے ہیں کہ یہ کام تو ہم نے اپنی عقل سے کیا ہے، پھر تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے اوپر پھر رحم فرماتا ہے اور بندے پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ کام ہم نے اپنی محنت اور عقل سے کیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 189 تا 190
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔