انسانی کوشش کا عمل دخل
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13305
سوال: ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی ہمارے یقین میں شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ پہلے سے لکھ دیا ہے جبکہ کسی مصیبت سے بچنے، کامیابی کے لئے تگ و دو کرنے یا رزق کے لئے دوڑ دھوپ کرنا بھی انسان پر لازم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک چیز جو پہلے سے لکھ دی گئی ہے اس میں انسانی کوشش کا عمل دخل کتنا ہے؟
جواب: بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز کو لکھ کر محفوظ کر دیا ہے۔ لیکن کوشش کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کا حصّہ ہے۔ کوئی بندہ جتنی سعی و کوشش کرتا ہے اس کا اسے اَجر یا نتیجہ ملتا ہے۔
کائنات کی تمام حرکات و سکنات ایک فلم کی صورت میں ریکارڈ ہیں۔ جس جس طرح اس فلم میں کائناتی مظاہر کے نقوش موجود ہیں اسی طرح بے شمار کہکشانی نظاموں میں نشر ہو رہے ہیں۔ بات جدّ و جہد، کوشش اوراختیار کی ہے۔ اگر جدّ و جہد اور کوشش نہیں کی جاتی تو زندگی میں خلاء واقع ہو جاتا ہے۔ یہ عمل انفرادی اور قومی صورتوں میں ازل تا ابد جاری ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ جب کوئی بندہ جدّ و جہد اور کوشش کرتا ہے اور اس جدّ و جہد اور کوشش کا ثمر کسی نہ کسی طرح اللہ کی مخلوق کے کام آتا ہے تو وسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
زمین پر اللہ نے جتنی بھی اشیاء تخلیق کی ہیں ان کے اندر بے شمار راستے کھل جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے لوہا تخلیق کیا۔ مِن حَیثُ القَوم یا انفرادی طور پر جب لوہے کی صفات اور لوہے کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگایا جاتا ہے تو لوہا ایک ایسی چیز بن کر سامنے آتا ہے جس میں لوگوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں۔ آج کی سائنس اس کا کھلا ثبوت ہے۔ سائنسی ترقی میں مشکل سے کوئی ایسی چیز ملے گی جس میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا دخل نہ ہو۔ صورتِ حال کچھ یوں بنی کہ لوحِ محفوظ میں انفرادی زندگی بھی نقش ہے اور قومی زندگی بھی نقش ہے۔ انفرادی حدود میں کوئی بندہ جب کوشش اور جدّ و جہد کرتا ہے تو اس کے اوپر انفرادی فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ قومی اعتبار سے ایک دو چار دس بندے جب کوشش کرتے ہیں تو اس جدّ و جہد اور کوشش سے پوری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ کہتا ہے۔
’’میں قوموں کی تقدیر نہیں بدلتا، جو قومیں اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتیں‘‘۔ (سورۃ الرّعد – 11)
لوحِ محفوظ پر یہ بات بھی نقش ہے کہ جو قومیں خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشش کرتی ہیں ان کو ایسے وسائل مل جاتے ہیں جن سے وہ معزز اور محترم بن جاتی ہیں اور جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں وہ محروم اور ذلیل زندگی گزارتی ہیں۔
لوحِ محفوظ پر لکھے ہوئے نقوش یہ ہیں:
• بندہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کو اگر صحیح سمتوں میں استعمال کرتا ہے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
• اگر غلط طرزوں میں استعمال کرتا ہے تو منفی نتائج مرتّب ہوتے ہیں۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اللہ کے عطا کردہ اختیارات کو اس طرح استعمال کرے کہ جس سے اس کی اپنی فلاح اور اللہ کی مخلوق کی فلاح کا سامان میسر ہو۔ انفرادی فلاح اللہ کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ اللہ خالق ہے ربّ ہے اور ربوبیّت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کے انعامات اور اکرامات اور اللہ کے پیدا کئے ہوئے وسائل سے ساری مخلوق فائدہ اٹھائے۔ مختصر اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب لوحِ محفوظ میں ریکارڈ ہے۔ اس فلم میں لوگوں کا عروج و زوال بھی لکھا ہوا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ قومیں اگر ان صحیح طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو ان کو عروج نصیب ہو گا اور اگر غلط طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو غلام بنا دی جائیں گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 230 تا 231
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔