اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہیں
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11932
سوال: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
’’اللہ وہ ہے جو ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔
یہ بھی ارشاد ہے کہ:
’’جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اللہ اسے جانتا ہے‘‘۔
’’اگر تم ایک ہو تو دوسرا اللہ ہے اور اگر تم دو ہوتو تیسرا اللہ ہے‘‘۔
’’اللہ ہی ابتداء ہے اللہ ہی انتہا ہے‘‘۔
اس کی تفصیل کیا ہے؟
جواب: ان سارے ارشادات میں یہ بات پوری طرح واضح کر دی گئی ہے کہ اللہ کا علم لامحدود اور لامتغیر و لامتناہی اس لئے ہے کہ یہ علم ٹائم اسپیس کی حد بندیوں سے ماوراء ہے۔ ان ارشادات سے یہ بات بھی منکشف ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے علم کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس سے منشاء خالصتاً آزادی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنانے کا ارادہ کیا تو فرمایا ’’کُن‘‘ اور کائنات وجود میں آ گئی۔ اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔ چونکہ علم کا مظاہرہ ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم نے کائنات کے خدوخال کا روپ اختیار کیا ہے اس لئے پوری کائنات بھی بجز علم کے کوئی اور حیثیت نہیں رکھتی۔ علم کی حیثیت زیادہ ہو یا قلیل بہر حال وہ علم ہے۔ اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بہرحال سمندر ہے۔ سمندر سے لئے ہوئے ایک قطرہ ِٔآب کو پانی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ چونکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے علم کا مظاہرہ ہے اس لئے کائنات کی حقیقت کائنات کی بنیاد اور کائنات کی ہیئت سوائے علم کے کچھ نہیں ہے۔ جب ہم عالم ناسوت میں بند زندگی کا تجربہ کرتے ہیں اور زندگی کے اندر غور و فکر کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ساری زندگی علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اور علم اس وقت علم ہے جب اس کے اندر معانی اور مفہوم موجود ہوں۔ علم کے اندر معانی اور مفہوم کی ایک طرز یہ ہے کہ بندہ اپنے اختیارات سے علم کے اندر معنی پہناتا ہے۔ اور علم کے اندر اصل مفہوم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے۔ بظاہر کائنات میں غور کرنے سے عجیب قسم کی پریشانی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس نظام میں زیادہ تر تکلیف و جراحت ہے مثلاً کوئی آدمی کھائے بغیر نہیں رہ سکتا، ہر آدمی سونے پر مجبور ہے۔ اتنی بندشیں ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں۔ علم کا یہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود علم سے الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا کہ:
اے آدم! تو اور تیری بیوی جنّت میں رہو اور خوش ہو کر کھاؤ جہاں سے دل چاہے۔ (سورۃ البقرہ – آیت نمبر 35)
جنّت ایک ایسی بستی ہے کہ جس کے رقبے کی حدود کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اس کی حدود لامتناہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ خوش ہو کر کھاؤ جہاں سے چاہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ آدم کو اللہ نے لامحدود جنّت کے رقبے پر تصرّف عطا کر دیا تھا۔ بالفاظ دیگر آدم جنّت کے لامحدود رقبے پر بلاشرکت غیرے مالک تھے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ درخت ہے اس کے قریب مت جانا۔ اور اگر تم نے ہمارے اس حکم یا ہدایت پر عمل نہیں کیا تو تم اپنے اوپر ظلم کرو گے۔
جنّت لامحدود رقبہ ہے۔ اس میں لاتعداد اور لاشمار درخت ہیں۔ ایک مخصوص درخت کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کر کے آدم کو ہدایت کرتے ہیں کہ اس درخت کے قریب مت جانا۔ آدم سے نافرمانی واقع ہوئی اور اس نافرمانی کے جرم میں جنّت کی فضاؤں نے آدم کو ردّ کر دیا۔ اور آدم جس سرزمین کے بِلاشرکتِ غیرے مالک تھے وہ زمین ان سے چھین لی گئی۔ اس واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔ ایک بہت وسیع و عریض باغ ہے۔ باغ کے پھل پھول، پودوں، نہروں، آبشاروں وغیرہ پر آدم کو پورا پورا تصرّف حاصل ہے۔ باغ کے اندر صرف ایک درخت ایسا ہے جس پر اسے تصرّف تو حاصل ہے لیکن اس تصرّف کو اختیارکرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جب تک آدم سے نافرمانی کا ارتکاب نہیں ہوا آدم کے لئے جنّت کا وسیع رقبہ (Time & Space) سے آزاد رہا اور جب آدم سے نافرمانی سرزد ہو گئی تو آدم کے اندر زمان و مکان کی حد بندیاں ظاہر ہو گئیں۔ اس درخت کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ گیہوں کا درخت تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ سیب تھا۔ کسی مذہب و مسلک کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ درخت انگور کا تھا۔ علیٰ ہذالقیاس مختلف لوگ مختلف باتیں کہتے ہیں۔ لیکن قرآن نے اس کا کوئی نام نہیں رکھا۔ صرف درخت کے نام سے یاد کیا ہے۔ روحانی نقطۂِ نظر سے جب لاشعوری واردات و کیفیات میں اس درخت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو دراصل یہ ایک طرزِ فکر کا سمبل ہے۔
جنّت میں ہو یہ رہا ہے کہ جو کچھ جنّت میں موجود ہے وہ دروبَست آدمی کے ارادے کے تابع ہے۔ آدمی کا دل چاہا کہ وہ سیب کھائے۔ جنّت میں سیب کا درخت بھی ہے۔ اس پر سیب لگے ہوئے بھی ہیں۔ لیکن سیب کا توڑنا وہاں زیربحث نہیں آتا۔ سیب کھانے کو دل چاہا اور سیب موجودہو گیا۔ پانی پینے کو دل چاہا اور پانی موجود ہو گیا۔ اس طرزِ فکر سے تصرّف کی دو طرزیں سامنے آتی ہیں۔ تصرّف کی ایک طرزِ فکر یہ ہے کہ ایک بندہ سیب کا درخت لگاتا ہے۔ اس کی نشوونما کا انتظار کرتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد سیب کا درخت اس قابل ہوتا ہے کہ اس کے اوپر پھل لگے۔ اس کے اندر سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ درخت کی طرف چلتا ہے اور درخت پر سے سیب توڑ کر کھا لیتا ہے۔ تصرّف کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیب کے درخت پر سیب لگے ہوئے ہیں۔ اس درخت کو نہ کسی بندے نے زمین میں بویا ہے، نہ اس کی نگہداشت کی ہے، نہ اس درخت کو پروان چڑھانے میں کوئی خدمت انجام دی اور نہ اسے درخت پر سے سیب توڑنے کی زحمت کرنا پڑتی ہے۔ دل چاہاکہ سیب کھاؤں اور سیب موجود ہو گیا۔ اس میں ایک بہت باریک نکتہ بیان ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارادے میں یہ بات موجود تھی کہ کائنات وجود میں آئے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ’’کُن‘‘ کائنات وجود میں آجا۔ کائنات بن گئی۔ جنّت کی زندگی میں آدم کے دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ وہ سیب کھائے۔ آدم نے کہا سیب اور سیب موجود ہو گیا۔ ’کُن‘ کہنے سے کائنات بن گئی، سیب کہنے سے سیب مل گیا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی ذات کے لئے احسن الخالقین کہہ کر بیان کیا ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ بھی مخلوق کو تخلیق کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انسانی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں حدِّ فاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وسائل کے بغیر محض علمی بنیاد پر تخلیق فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ تھا، اس کے بارے میں ’کُن‘ کہہ کر ان تمام چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ ظاہر فرمانا چاہتے تھے تخلیق کر دیا۔ آدم کے اندر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی جو تخلیقی صلاحیتیں کام کر رہی ہیں وہ وسائل کی محتاج ہیں۔ جب تک کوئی بندہ ان تخلیقی صلاحیتوں کو زمان و مکان کی حد بندیوں سے آزاد رہ کر استعمال کرتا ہے وہ سب جنّت کی زندگی ہے اور جب کوئی بندہ ان تخلیقی صلاحیتوں کو زمان و مکان کی حد بندیوں کے اندر اور وسائل کے اندر بند کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق یہ جہالت اور ظلم ہے۔ جس طرح عقل و شعور اور دانائی ایک درخت کی طرح پھلتی پھولتی ہے یعنی علم کے اندر طرح طرح کی شاخیں پھوٹتی ہیں، نئے نئے فلسفوں کی داغ بیل پڑتی ہے، طرح طرح کی ایجادات ہوتی ہیں، اسی طرح ظلم و جہالت کے درخت پر بھی پھول پتے اور شاخیں اگتی ہیں۔ لیکن چونکہ بنیاد ظلم اور جہالت پر ہوتی ہے اس لئے آدمی ان ساری ایجادات اور ترقّیوں سے خوش ہونے کی بجائے ناخوش ہوتا ہے۔ پرسکون ہونے کی بجائے بے سکون ہو جاتا ہے۔ مطمئن ہونے کی بجائے غیر مطمئن زندگی گزارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں جب ہم موجودہ سائنسی ترقّیوں کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس ترقی میں وہ تمام چیزیں ملتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ظلم اور جہالت کے نام سے بیان فرمایا ہے۔
آج کی ترقی پوری نوعِ انسانی کے لئے ایک عذاب بن گئی ہے۔ ہر شخص غیر مطمئن اور بے سکون ہے۔ دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک عدم تحفّظ کا اژدہا منہ کوسلے ہوئے پوری نوعِ انسانی کو نگلنے کے لئے بے قرار ہے۔ حالانکہ جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے یہ ساری ترقیاں، یہ ساری ایجادات، یہ ساری تخلیقات اس خیال کے تحت وجود میں آئی ہیں کہ نوعِ انسانی کو سکون ملے گا لیکن چونکہ یہ تمام چیزیں (Time & Space) میں بند ہو کر معرض وجود میں آئی ہیں اس لئے آدمی بدحال اور پریشان ہے۔ جنّت کی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب آدم نے اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت کو پس پشت ڈال دیا تو وہ مصائب اور آلام میں گرفتار ہو گیا۔ قرآن پاک میں ہے:
’’اتر جاؤ! اب تمہارے اوپر ذلت اور مسکنت کی مار ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ – آیت نمبر 36)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 58 تا 62
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔