اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11936
سوال: اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات کا کیا علم تھا؟
جواب: کائنات اور کائنات میں موجود تمام تخلیقات، تخلیقات میں تمام نوعیں اور ہر نوع کے الگ الگ افراد، افراد کا پھیلنا اور سمٹنا، پیدائش کا تسلسل اور موت کا وارد ہونا، زمین اور سماوات، سورج، چاند، ستارے، بے شمار کہکشانی نظام، جنّت، دوزخ اور جنّت دوزخ کے اندر زندگی گزارنے کے تمام حواس اور تقاضے، حواس میں ردّ و بدل اور ردّ و بدل کے ساتھ حواس کی کمی بیشی، ذہنی رفتار کا گھٹنا یا بڑھنا، حواس کا الگ الگ تعیّن۔۔۔۔۔۔سننا، دیکھنا، چھونا، چکھنا، محسوس کرنا، جسمانی خدوخال کا الٹ پلٹ ہونا، جذبات میں اشتعال پیدا ہونا یا کسی بندے، کسی ذی روح کا نرم خو ہونا۔ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود علم کا عکس ہیں۔
کائنات میں موجود کوئی ایک شئے۔۔۔۔۔۔اس کی حیثیت کسی بڑے سے بڑے ستارے کی ہو یا زمین کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے کی ہو، اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذہن کے اندر اس خوبصورت دنیا کو مظہر بنانا چاہا تو فرمایا ’کن‘ اور کائنات میں موجود تمام چیزیں من و عن اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھیں یا ہیں ایک تخلیقی وجود میں ظاہر ہو گئیں۔ تخلیقات کا یہ سلسلہ یا کنبہ اتنا وسیع ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:’’سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور سارے درخت قلم بن جائیں، پھر بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری نہیں ہوں گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو کیوں بنایا؟ اور یہ ساری خوبصورت تخلیقات کیوں عمل میں آئیں؟ جنّت دوزخ کے دو الگ الگ گروہ کیوں وجود میں آئے؟ ظاہری دنیا کے عجائبات اور غیب کی دنیا کے لامحدود عجائبات کو کیوں بنایا گیا؟ اس کی وجہ خود اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ ایک ایسی کائنات تخلیق کروں جو مجھ سے متعارف ہو کر مجھے پہچان لے۔‘‘ (حدیث قدسی)
اس حدیث قدسی میں تفکر کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ کائنات کی تخلیق کا منشاء بجز اس کے کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ مجھے پہچانا جائے۔ پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کا انتخاب کیا جائے اور اس منتخب مخلوق کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ علم دیا جائے۔ جہاں تک علم کی تقسیم کا تعلق ہے، ہر ذی روح کے اندر علم موجود ہے۔ ایک بکری یہ جانتی ہے کہ درخت کے پتے میری غذا ہیں۔ لیکن بکری یہ نہیں جانتی کہ بیری کا درخت کس طرح اگتا ہے اور درخت سے درخت اور دوسرے درخت سے تیسرا درخت کیسے اگایا جاتا ہے۔ بھوک پیاس کا علم تمام مخلوقات میں قدر مشترک ہے خواہ وہ ذی روح ہوں یا انہیں ذی روح نہ سمجھا جاتا ہو۔
مخلوق کی دو نوعیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم کے اندر معانی تلاش کرنے اور مفہوم پہنانے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ ایک انسان اور دوسرے جنّات، جنّات کی تخلیق کے فارمولے بیان کرنا اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ چونکہ اب تک ان اسباق کو انسان تک محدود رکھا گیا ہے اس لئے انسانی علم ہی ہمارے پیش نظر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 62 تا 63
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔