اللہ تعالیٰ کی صفات
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11961
سوال: کائنات کو تخلیق کرنے کے لئے اللہ کے ذہن میں کیا پروگرام تھا؟
جواب: کائنات کی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر جب ہم غور کرتے ہیں جس ارشاد کی بنا پر کائنات اپنے تمام تخلیقی اجزاء اور عناصر کے ساتھ موجود ہو گی تو ہم اس کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم کائنات کی صورت میں وجود پذیر ہو گیا۔ جس حکم کی بناء پر وسیع و عریض اور لامتناہی کائنات، کھربوں کہکشانی نظام، سنکھوں کی تعداد سیارگان اور کروڑوں کی تعداد میں ستارے وجود میں آنے کا سبب صرف اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے اور وہ حکم ہے ’’کُن‘‘… کُن کا مطلب ہے ’’ہوجا‘‘ جب ہم اس ’’ہوجا‘‘کے اوپر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہو جا کہنے والی ہستی کے ذہن میں کوئی ایسا پروگرام ہے جس پروگرام کے تحت وہ کسی چیز کو نہ صرف یہ کہ وجودمیں لانا چاہتا ہے بلکہ اسے قائم رکھنے کے لئے وسائل بھی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا ہو جا صرف یہ فرمایا کہ ’’کُن‘‘ ہو جا۔ کیا ہو جا یہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذہن اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کا تمام کا تمام علم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب کُن فرمایا تو کائنات کو تخلیق کیا۔ پھر اس تخلیق میں ایک نئی بات پیدا ہوئی۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بنائی ہوئی تخلیق کو نظر عطا کی۔ اور نظر کو فعّال، متحرّک بنانے کے لئے ارشاد فرمایا۔ ’’ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘ میں ہوں تمہارا رب۔ (سورۃ اعراف – آیت نمبر 172)… بہت زیادہ تفکر طلب ہے۔ اس کی تشریح کو آئندہ کے لئے محفوظ کر کے ہم اصل معاملے کی طرف آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ میں تمہارا ربّ ہوں تو کائنات میں موجود تمام تخلیقات، بشمول فرشتے اور انسان اور جنّات، سب نے برملا یہ کہا۔ ’’جی ہاں! ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آپ ہمارے ربّ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے یہ فرمانے سے پہلے کہ میں تمہارا ربّ ہوں کائنات کی حیثیت ایک گونگی، بہری شئے کی تھی۔ اس کو اپنا ادراک تو تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ میں کیا ہوں، کیوں ہوں، کون ہوں اور میرا بنانے والا کون ہے۔ یہ نہ جاننا کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور میرا بنانے والا کون ہے۔ اس بات کی علامت ہے کہ کائنات کو ابھی نظر نہیں ملی تھی۔ کائنات میں چونکہ بنیادی حیثیت انسان کی ہے اس لئے ہم کائنات کی بجائے انسان کا تذکرہ کریں گے۔ کسی جگہ بے شمار انسان موجود ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور ہمارا بنانے والا کون ہے؟ اس لاعلمی کو علم سے بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ اقدس کو کائنات کے سامنے پیش کیا۔ اور بآواز بلند فرمایا:
’’میں تمہارا ربّ ہوں۔‘‘
کائنات یا انسان اس آواز کی طرف متوجہ ہوا۔ اور اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی خالقیت کا اعتراف کیا۔ اب اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ نظر کا پہلا ٹارگٹ یا مرکزیت اللہ ہوا۔ اللہ کو دیکھنے کے بعد اللہ کا عکس دماغ کے اوپر منتقل ہوا۔ یہی وہ قانون ہے جس کو ہم نے پچھلے اسباق میں بیان کیا ہے یعنی آنکھ کسی عکس کو قبول کر کے دماغ کی اسکرین پر منتقل کرتی ہے۔ یہ منتقلی ۱۵ سیکنڈ ہلکی گہری قائم رہ کر تبدیل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے پیش نظر ہم یہ جانتے ہیں کہ نظر اس وقت کام کرتی ہے جب نظر کے لئے کوئی مرکزیت ہو، انسان کی نظر کی پہلی مرکزیت اللہ ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد مرکزیت میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ہم علمِ حُضوری سے ہٹ کر علمِ حُصولی کے جال میں بند ہو گئے۔ نتیجے میں ہماری نگاہ کی مرکزیت مفروضہ اور فکشن حواس بن گئے۔ لیکن قانون اپنی جگہ بحال رہا جس طرح حقیقت دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتی ہے۔ اسی طرح فکشن حواس بھی دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ فکشن حواس کی منتقلی ہمیں پابند حواس میں قید رکھتی ہے اور غیر فکشن حواس کی منتقلی ہمیں آزاد دنیا سے روشناس کراتی ہے۔ روحانی سلسلوں، اسباق، قواعد و ضوابط، اعمال و اشغال، تفکر، مراقبہ، تصوّرِ شیخ ان تمام باتوں کو بہ نرک غائر دیکھا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ کسی ایک ہستی کو مرکزیت بنا کر بار بار دماغ کی اسکرین پر منتقل کیا جائے۔ جتنا زیادہ ایک خیال یا ایک مرکزیت دماغ کی اسکرین پر منعکس ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے دماغ کا ایک پیٹرن بن جاتا ہے۔ اور یہی پیٹرن تصوّف کی اصطلاح میں طرزِ فکر ہے۔ ہم جب استاد، پیر و مرشد یا شیخ کا تصوّر کرتے ہیں تو ازلی قانون کے مطابق شیخ کے اندر کام کرنے والی اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم بار بار ہمارے دماغ کے اوپر وارد ہوتا ہے اور جیسے جیسے شیخ کے اندر کام کرنے والی روشنیاں سالک کے اندر کام کرتی ہیں۔ سالک کا ذہن ایک نقطہ پر قائم ہو جاتا ہے۔
اسی کو تصوّف کی اصطلاح میں نسبت قرار دیا گیا ہے۔ روحانیت میں نسبت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ محبت ہے جس قدر محبت و عشق کی لہریں موجزن ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے شیخ کا ذہن منتقل ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شیخ کے اندر کام کرنے والی نہ صرف یہ کہ روشنیاں، انوار بلکہ اللہ تعالیٰ کی تجلّیات بھی سالک کو حاصل ہو جاتی ہیں۔ یا سالک ان انوار اور تجلّیات سے متعارف ہو جاتا ہے۔
اس صورت کا نام تصوّف میں ’’فنا فی الشیخ‘‘ ہے۔ شیخ کی روشنیاں اورِ شیخ کے اندر کام کرنے والے انوار و تجلّیات بھی شیخ کا اپنا ذاتی وصف نہیں ہے۔ جس طرح ایک سالک نے اپنی تمام تر توجہ اور ذہنی ارتکاز کے ساتھ شیخ کے علم اور شیخ کی صفات کو اپنے اندر منتقل کیا ہے، اسی طرح شیخ نے اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ سیدنا حضورﷺ کے علم اور صفات کو اپنے اندر منتقل کیا ہے۔ فنا فی الشیخ کے بعد شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ صلاحیتیں سالک کے اندر بیدار اور متحرّک ہو جاتی ہیں جن صلاحیتوں کی بنیاد پر شیخ نے سیدنا حضورﷺ کی نسبت حاصل کی ہے۔ اس مقام کو تصوّف میں فنا فی الرسول کہا جاتا ہے۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے اوپر وحی آتی ہے۔ بشریت کے دائرے سے باہر ہو کر دیکھا جائے تو حضور ختم المرسلین و کی فضیلت یہ ہے کہ ان کے اوپر وحی نازل ہوتی ہے اور وحی خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے یعنی سیدنا حضورﷺ کے ذہن مبارک پر اللہ تعالیٰ کے علوم اللہ تعالیٰ کے انوار اور اللہ تعالیٰ کی تجلّیات منعکس ہوتی ہیں۔ فنا فی الرسول کے بعد کوئی سالک قدم بہ قدم محبت و عشق اور گداز کے ساتھ حضورﷺ کے علوم کا عارف ہوتا رہتا ہے اور ایک سعید وقت ایسا آتا ہے کہ حضورﷺ کے علوم سالک کو اس کی استطاعت کے مطابق حاصل ہو جاتے ہیں۔ جتنی استطاعت کسی سالک کے اندر موجود ہے اور جس مناسبت سے حضورﷺ کے علوم اسے منتقل ہوئے اسی مناسبت سے وہ حضورﷺ کی نسبت سے فائز ہوا۔ تصوّف میں اس نسبت کو نسبت محمدی کہا جاتا ہے۔ نسبت محمدی حاصل ہونے کے بعد سالک کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور بالآخر وہ حضورﷺ کی نسبت اور ہمت کے وسیلے سے اس مقام پر جا ٹھہرتا ہے جس مقام میں رہتے ہوئے اس نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جی ہاں! آپ ہمارے ربّ ہیں اس نسبت کو تصوّف میں نسبت وحدت کہا جاتا ہے۔اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ فضل فرمائیں تو وہ وہ مقامات کھلتے ہیں جن کے بارے میں لکھنا یا بتانا، شعوری سکت سے باہر ہے۔
مقصد اس تمام گفتگو سے یہ ہے کہ انسان کے اندر دماغ ایک ایسی اسکرین ہے جس کا عکس مسلسل و متواتر بغیر وقفہ کے منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عکس کی معنویت جدا جدا ہے۔ اگر عکس کی یہ منتقلی علمِ حُصولی کے دائرہ کار میں ہے تو اس علم کی تمام معنویت مفروضہ اور فکشن ہے اور اگر اس عکس کی منتقلی علمِ حُضوری کے دائرہ کار میں ہے تو عکس کے اندر موجود تمام علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں لیکن قانون اپنی جگہ قانون ہے۔ جب تک ذہن انسانی پر کوئی عکس منتقل نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر کام نہیں کرتی۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی آدمی اندھا ہے اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ وہ بھی دوسری چیزوں کو محسوس کرتا ہے، سمجھتا ہے ان کی علمی حیثیت کو جانتا ہے ہم اس بات کو بتا چکے ہیں کہ دیکھنے کا عمل ڈیلوں کی حرکت اور پلک جھپکنے پر قائم ہے۔
اس ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہوا کہ روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے نسبت حاصل ہونا ضروری ہے۔ نسبت سے مراد دراصل اس استاد یا پیر و مرشد کی طرزِ فکر ہے جس سے روحانی علوم منتقل ہو جاتے ہیں۔ روحانی علوم منتقل ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک قسم کا ایسا ورثہ ہے جو شیخ کی روحانی اولاد کو منتقل ہوتا ہے۔ جس طرح ایک باپ کی دنیاوی دولت اولاد میں تقسیم ہوتی ہے۔ نسبت یا طرزو فکر کے دو رخ ہیں۔
ایک رخ یہ کہ ایسے بندے کی طرزِ فکر منتقل ہو جس کے ذہن میں دنیاوی جاہ و جلال، عزت و شہرت کی اہمیت ہو۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ ایسے استاد کی طرزِ فکر منتقل ہو جس کی طرزِ فکر میں اور جس کے ذہن میں دنیاوی جاہ و جلال کی کوئی خاص وقعت نہ ہو۔ اس حد تک وہ دنیا سے متعلق ہو کہ اس کی ضرورتیں پورا ہوتی رہیں۔ ضروریات کے سلسلے میں بھی اس کی طرزِ فکر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنیادی طور پر دنیاوی ضروریات کم سے کم ہونی چاہئیں۔
وہ طرزِ فکر جس میں دنیا کی محبت ہے اور دنیاوی آرام و آسائش کی اس کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت ہے اور ایسے استاد یا گرو سے جو علم منتقل ہوتا ہے اس کو بھی روحانی علوم سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے علوم جو روحانیت کے دائرہ کار میں آتے ہوں اور طرزِ فکر بنیادی طور پر دنیاوی ہو تصوّف کی اصطلاح میں استدراج کہلاتے ہیں۔
استدراج سے مراد یہ ہے کہ ایسے علوم جن کے ڈانڈے شیطان سے ملتے ہوں یعنی بنیادی طور پر شیطنیت اس کے اندر موجود ہو۔ ہم اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ شیطان یا ابلیس جن علوم سے فیض یاب ہے اور جو علوم اسے حاصل ہیں یا اس کی ذُریّت کو حاصل ہیں وہ بھی ایک درجہ میں روحانی علوم ہیں۔ اس کے برعکس وہ روحانی علوم جو ایسے استاد سے منتقل ہوتے ہیں جن کی طرزِ فکر میں دنیا محض ایک فریب ہے اور فکشن ہے، ان کو علمِ حُضوری کہا جاتا ہے۔ روحانی علوم کی دو طرزیں ہیں ایک استدراج اور ایک علمِ حُضوری۔ استدراج سے مراد وہ تمام شیطانی علوم ہیں جو آدمی اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے حاصل کر لیتا ہے۔ یہ بات بہت زیادہ غور طلب ہے کہ استدراجی علوم بھی بطور ورثہ کے منتقل ہوتے ہیں۔ اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ استاد کی شیطانی طرزِ فکر مرید کے اندر منتقل ہو گئی۔ استدراج کو حاصل کرنے کے لئے بھی ذکر و اشغال موجود ہیں۔ اس علم کو حاصل کرنے کے لئے بھی محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور بڑی بڑی ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح علمِ حُضوری حاصل کرنے کے لئے بھی بڑے بڑے مجاہدے اور ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔ جس طرح ایک روحانی آدمی سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے اسی طرح ایک ایسے آدمی سے بھی خرق عادت صادر ہوتی ہے جو استدراج کا یا شیطانی علوم کا وارث ہے۔ یہ بات کہ استدراج اور شیطانی علوم سے خرق عادت کا صادر ہونا یا علمِ حُضوری یا انبیاء کے علوم کے تحت کسی کرامت یا خرق عادت کا صادر ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بالوضاحت بیان فرمایا ہے۔ فرعون نے اپنے ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو طلب کیا اور ایک مقررہ دن حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے مقابلے کے لئے مقرر ہوا۔ ایک بڑے میدان میں وہ تمام ماہرین علم استدراج اور جادوگر جمع ہو گئے۔ اس میدان میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی موجود ہیں۔ سوال کیا گیا کہ اے موسیٰ! پہل آپ کی طرف سے ہو گی یا ہماری طرف سے؟ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا۔ اے جادوگر! پہل تم کرو۔ جادوگروں نے رسیاں پھینکیں جو سانپ بن گئیں اور بانس پھینکے جو اژدھا بن گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اس ہیئت کو دیکھ کر گھبرا گئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 73 تا 78
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔