اللہ تعالیٰ کی امانت کے حصول کے بعد ظالم اور جاہل کیسے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11861
سوال: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ہم نے سماوات، زمین اور پہاڑوں کو اپنی امانت پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اگر ہم امانت کا یہ بار اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیں گے تو ہمارا وجود عدم ہو جائے گا۔ اور ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور اس امانت کو انسان نے قبول کر لیا۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی امانت کے حصول کے بعد ظالم اور جاہل کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب: تخلیقی فارمولوں کے تحت اللہ کی ہر مخلوق باشعور اور باحواس ہے اور اپنی خدادا صلاحیتوں سے قائم زندہ اور متحرک ہے۔ آسمان، زمین اور پہاڑوں کی گفتگو ہمارا ذہن اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان کی طرح آسمان، زمین اور زمین کے اندر تمام ذرّات اور زمین کے اوپر تمام تخلیق اور پہاڑ شعور رکھتے ہیں۔ جس طرح آدمی کے اندر عقل کام کرتی ہے اسی طرح مٹی کے ذرّات بھی اپنی موجودگی سے باخبر ہیں۔ کیونکہ کسی بات کا اقرار یا انکار بجائے خود فہم و ادراک اور شعور کی دلیل ہے۔ آیات مقدسہ میں تفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی زندگی جس میں بصیرت شامل نہ ہو وہ ظلم اور جہالت سے تعبیر کی جاتی ہے۔ پہاڑوں، آسمانوں اور زمین نے تفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح وہ ظلم و جہالت کے دائرے سے باہر نکل گئے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کی جو امانت حاصل ہے اس سے صرفِ نظر اگر انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان مٹی کے ذرّات سے کم عقل اور کوتاہ نظر ہے۔ زمین کی صلاحیت اور قوتوں پر نگاہ ڈالنے سے جن مظاہرات کے خاکے سامنے آتے ہیں وہ اپنی جگہ بجائے خود اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ زمین ایک ہے، دھوپ ایک ہے اور پانی بھی ایک ہے۔ لیکن جب زمین تخلیق کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو ایسے ایسے رنگ بکھیرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ہی پانی زمین کی کوکھ میں جذب ہونے کے بعد اتنی تخلیقات میں جلوہ گر ہوتا ہے کہ ان کا کوئی شمار و قطار نہیں۔ لگتا ہے کہ زمین کے بطن میں بے شمار سانچے نصب ہیں، جس سانچے میں پانی ٹھہر جاتا ہے وہاں نیا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی کیلا بن جاتا ہے، کبھی سیب بن جاتا ہے، کہیں انگور بن جاتا ہے، کہیں پھول بن جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک چھوٹا سا بیج جب زمین کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا ہے تو زمین اس بیج کو پرورش کر کے تناور درخت بنا دیتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے مان کے پیٹ میں بچے کی نشوونما ہوتی ہے۔
انسان اور زمین کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین انسان سے زیادہ باصلاحیت ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انصاف اور بصیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم تلاش کریں کہ اشرف المخلوقات ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ عام زندگی میں انسان کی جو صلاحیت مظہر بنتی ہے اور جو اعمال و حرکات اس سے سرزد ہوتے ہیں صرف ان سے اشرف المخلوقات ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ پیدائش، شعور، بھوک، پیاس اور خواہشات چاہے جسمانی ہوں یا جنسی انسان دوسری مخلوقات کے برابر ہے۔ البتہ مظاہراتی زندگی سے ہٹ کر انسان اس درجہ پر فائز ہے جو آسمانوں، پہاڑوں اور زمین کو حاصل نہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا امین ہے۔ کوئی انسان اگر اس امانت سے واقفیت رکھتا ہے۔ تو وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہے۔ بصورت دیگر آدم زاد اور دوسری مخلوقات میں کوئی خطِ امتیاز نہیں کھنچا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت حاصل ہونے کے باوجود اس نعمت سے بے خبر ہونا سراسر ظلم اور جہل ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس خصوصی انعام سے مستفیض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اپنی ذات کا عرفان حاصل ہو۔ تصوف میں اس علم کو خود آگاہی کا نام دیا جاتا ہے۔ خود آگاہی کے بعد انسان کے اوپر علوم کے جو دروازے کھلتے ہیں ان میں سے گزر کر بالآخر اللہ کے ساتھ بندے کا رشتہ مستحکم اور مضبوط ہو جاتا ہے اور جب کوئی بندہ مستحکم رشتے کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو وہ اس امانت سے وقوف حاصل کر لیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس کو ودیعت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ اس امانت سے واقف ہونا ہی انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کرتا ہے اور اگر وہ اس امانت سے واقف نہیں ہے تو بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 28 تا 30
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔