اللہ تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11857
سوال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں۔ براہِ کرم اس کی تشریح کریں کہ جب اللہ تعالیٰ ہم سے اتنے قریب ہیں تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
جواب: سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین نارنگی کی شکل کی ہے اور مستقل گردش میں رہتی ہے اور ہم اس کے اوپر بستے ہیں لیکن روحانیت میں جب زمین کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے یا روحانی لوگ جس طرح زمین کو دیکھتے ہیں تو زمین انہیں پپیتے کی طرح نظر آتی ہے۔ فی الواقع ایسا پپیتا جس کے اطراف میں دیوار اور بیچ میں خلاء ہے اور ہم اور ہماری دنیا کے دوسرے موجودات یعنی درخت، حیوانات،چرند، پرند، درند، جنّات اور ملائکۂِ عنصری (وہ فرشتے جو اس دنیا کو سنبھالے ہوئے ہیں) اس خلاء میں بستے ہیں۔ فرشتے اور جنّات اپنے وجود کے بارے میں کیا علم رکھتے ہیں اور اس زمین کے اوپر کس طرح رہتے اور چلتے پھرتے ہیں، یہ ایک الگ علم ہے۔ البتہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ ایک سطح یا فرش ہے جس پر وہ چلتا پھرتا ہے۔ وہ اس سطح پر بنیادیں اور دیواریں بنا کر مکان بناتا ہے اور اس میں رہتا ہے جس گھر یا کمرہ میں رہتا ہے وہاں بھی اس کا یہ تصوّر ہوتا ہے کہ میں زمین پر ہوں اور زمین سے چھت تک خلاء ہے اور مکان کی اونچائی ہے۔ چاہے وہ ایک منزل ہو یا بیس منزل۔ آسمان تک پھر خلاء ہے۔ اسی طرح جب فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو بھی پہلے خلاء ذہن میں آتا ہے۔ پھر فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کا تصوّر قائم ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ میں زمین پر ہوں، زمین اور آسمان کے درمیان خلاء ہے، فرشتے آسمان کے اوپر ہیں۔
خلاء فی الحقیقت ایک راز ہے۔ اس راز سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے سمجھنے کی طرز میں یہ نقص واقع ہو گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کرتے ہیں تو اللہ اور اپنے درمیان اربوں، کھربوں سال کا فاصلہ سمجھ کر بات کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اربوں کھربوں سال دور ایک مقام پر تشریف فرما ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں تمہاری رگ جاں سے زیادہ قریب ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نہ کبھی بندے سے دور ہوئے اور نہ ہی اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
’’جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے، اور جہاں تم دو ہو وہاں تیسرا اللہ ہے۔‘‘
قرآن کریم کی اس آیت اور حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی حدیث سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اللہ اور بندہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔
ہم چاہے ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالیں یا سینکڑوں بار قرآن پاک کی تلاوت کریں اور تمام وہ اعمال کریں جن کو حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی سنت کہا جاتا ہے لیکن اللہ اور بندے کے درمیان دُوری کا تصوّر قائم رہے تو ان اعمال کے اندر کام کرنیوالے انوار سے ہم بے خبر رہتے ہیں۔ ذرا تفکر کریں تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ جن دلوں میں ایمان موجود ہے ان کی نظروں کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا ہے اور وہ اس بات سے واقف ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگ جان سے زیادہ قریب ہیں۔
شیطان ہمیشہ چھپ کر پردے کے پیچھے سے وار کرتا ہے مگر جس آدمی کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا ہے وہ شیطان کو بھی دیکھ لیتا ہے اور ساتھ ہی واقف ہو جاتا ہے کہ یہ شیطان ہے۔ جس کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ اور بندہ کے درمیان دُوری پیدا کر دے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص جس کے بارے میں پورا یقین ہے کہ آپ کا دشمن ہے، آپ کے سامنے آ جائے اور کہے کہ میرے ساتھ چلو۔ میں تمہاری دعوت کروں گا۔ بہت اچھی اچھی چیزیں دوں گا، تفریح کراؤں گا۔ باغ کی سیر کراؤں گا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کا دشمن ہے اور فوراً سمجھ جائیں گے کہ اس بہانے وہ آپ کو کسی سخت پریشانی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ آپ اس کے فریب میں نہیں آئیں گے۔ یہی معاملہ شیطان کا بھی ہے۔ شیطان جب یہ دیکھ لیتا ہے کہ شخص اپنے چھپے ہوئے ازلی دشمن کو دیکھ سکتا ہے وہ خود ہی آپ کے سامنے نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ اگر اس نے ورغلانے کی کوشش بھی کی تو آپ اس کی بات نہیں مانیں گے۔
یہ نشانی ہے ان حضرات کی جن کے دلوں میں ایمان راسخ، مستحکم اور قائم ہے اور جو نظر کے قانون سے واقفیت رکھتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 26 تا 28
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔