اسمِ اعظم کیا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13313
سوال: اسمِ اعظم کیا ہے اور اس کے جاننے اور پڑھنے سے انسان کے اندر کیا کیا روحانی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں؟ یہ اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اکثر حضرات کو دیکھا کہ اسمِ اعظم جاننے اور اسے پڑھنے کے لئے تلاش میں رہتے ہیں۔ مجھے بھی یہ شوق پیدا ہوا کہ اسمِ اعظم کو سمجھوں اور اسے اپناؤں۔ آپ میرے لئے مناسب اسمِ اعظم تجویز فرما کر اس کے وِرد کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ کیا آپ کے عطا کردہ اسمِ اعظم کی اجازت صرف میرے لئے ہو گی یا دیگر خواتین و حضرات بھی اس سے مستفیض ہو سکتے ہیں؟ یہ وضاحت ضرور فرما دیں۔
جواب: لوحِ محفوظ کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کارفرمائی ہے۔ حال، مستقبل اور ازل سے ابد تک درمیانی فاصلہ ’’لفظ‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے سب کا سب اللہ کا فرمایا ہوا ’’لفظ‘‘ ہے اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا ’’اسم‘‘ ہے۔ اسی اسم کی مختلف طرزوں سے نئی تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ لفظ یا اس ہی سے پوری کائنات کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ سردار اسم بھی اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور اسی کو ’’اسمِ اعظم‘‘ کہتے ہیں۔
اسماء کی حیثیت روشنیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرز کی جتنی روشنیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی ان ہی روشنیوں کا مرکب ہوتا ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزاء ہوتے ہیں۔ مثلاً انسان کے اندر کام کرنے والے تمام تقاضے اور پورے حواس کو قائم کرنے یا رکھنے والا اسم ان سب کا سردار ہوتا ہے۔ اور یہی ’’اسمِ اعظم‘‘ کہلاتا ہے۔
نوع جنّات کے لئے الگ اسمِ اعظم ہے۔ اسی طرح نَوعِ انسان، نَوع ملائکہ، نَوع جمادات و نباتات کے لئے بھی الگ الگ اسمِ اعظم ہیں۔ کسی نَوع سے متعلق اسمِ اعظم کو جاننے والا صاحب علم اس نَوع کی کامل طرزوں، تقاضوں اور کیفیات کا علم رکھتا ہے۔ اسم ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ہر صفَت کو کامل طرزوں کے ساتھ اپنے اندر رکھتا ہے اور تخلیق میں کام کرنے والا سب کا سب قانون اللہ کا نور ہے۔
اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (سورۃ النّور – 35)
ترجمہ: اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا
یہی اللہ کا نور لہروں کی شکل میں نباتات، جمادات، حیوانات، انسان، جنّات اور فرشتوں میں زندگی اور زندگی کی پوری تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہ فیضان ہے کہ ہرکائنات میں ہر فرد نور کی ان لہروں کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔
انسان کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں۔ ایک دن کے اور دوسرے رات کے۔ ان دونوں حواسوں کی کیفیات کو جمع کرنے پر ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہوتی ہے۔ اور ان گیارہ ہزار کیفیات پر ایک اسم ہمیشہ غالب رہتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء کام کرتے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہزار ہے اور ان گیارہ ہزار میں سے ساڑھے پانچ ہزار دن اور ساڑھے پانچ ہزار رات میں کام کر رہے ہیں۔
انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے اس کے اندر کام کرنے والا ہر اسم دوسری نَوع کے لئے اسمِ اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا ہے۔ تکوین یا اللہ تعالیٰ کے ایڈمنسٹریشن کو چلانے والے حضرات یا صاحبِ خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان اسماء کا علم رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا اسم ’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوم‘‘ اسمِ اعظم ہے۔ آپ اس اسم کا وِرد کثرت کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، وقت بے وقت، وضو بغیر وضو کر سکتے ہیں۔ آپ کو اور آپ کی طرح کے تمام قارئین حضرات و خواتین کو جو واقعی ذہنی سکون کے متلاشی ہیں اور اللہ کی رضا و تسلیم چاہتے ہیں، ان سب کو اجازت عام ہے۔ اسمِ اعظم وِرد کرنے کے ضمن میں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ان گنت مرتبہ بغیر لالچ اور صلہ و ستائش کے وِرد کرنا چاہئے۔ اس طرزِ فکر کے ساتھ اسمِ اعظم وِرد کرنے سے اللہ تعالیٰ کا عرفان نصیب ہوتا ہے اور دنیاوی تمام کام بھی غائبانہ طور سے سر انجام پاتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 233 تا 235
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔