آٹھ لڑکیاں
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2614
رسول اللہﷺ کو ایک شخص نے بتایا میری بچی جو مجھ سے محبت کرتی تھی میں نے اسے کنوئیں میں پھینک دیا تھا حالانکہ وہ “ابا ابا” پکاررہی تھی۔قیس بن عاصم نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ لڑکیوں کو زندہ دفن کیا۔
عربوں میں دستور تھا کہ جب تک خاوند زندہ رہتا بیوی اس کے احکام بجا لاتی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث اسے اپنی وراثت میں لے لیتے تھے۔ اور کسی دوسرے سے اس کی شادی کر دیتے تھے۔ شادی کر کے مہر کی رقم خود حاصل کر لیتے تھے۔ اگر بیوہ عورت مالدار ہوتی تو اس کی شادی نہیں ہونے دیتے تھے تا کہ دولت ان کے قبضہ میں رہے۔ یتیم مسکین لڑکی کو بالغ ہونے تک اپنے پاس رکھتے اور پھر خود نکاح کر لیتے تھے۔ اس میں مرد کی عمر کی کوئی قید نہیں تھی۔
رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے عورت مرد کے ظلم و ستم کی چکی میں ہر روز پستی تھی، روز جیتی تھی، روزمرتی تھی۔ عورت کے نان نفقہ کی کوئی ذمہ داری مرد پر نہیں تھی۔ مرد حق وراثت سے عورت کو محروم کر سکتا تھا۔ جبکہ خود بیوی کی ملکیت کا حق دار تھا۔ عورت خود اپنی کمائی اپنے اوپر آزادانہ خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی۔ عورت کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ شوہر کا گھر چھوڑ کر چلی جائے خواہ وہ کتنا ہی اس پر ظلم کرتا ہو۔ قدیم یورپی قانون نے عورت کو مرد کی ملکیت قرار دیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 65 تا 66
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔