حق مہر
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2586
اسلام سے قبل عرب میں یہ رواج تھا کہ اکثر لوگ جب اپنی بیویوں کو علیحدہ کرتے تھے تو نہ عورت کو حق مہر دیتے تھے اور نہ ہی خوش اسلوبی سے رخصت کرتے تھے۔ عورت بے یارو مددگار ہو جاتی تھی۔ کوئی اس کا پرسان حال نہ ہوتا تھا۔ اسی لئے معاشرے میں بے حیائی عام ہو گئی تھی۔
اسلام نے جہاں عورت کو دیگر بے شمار حقوق سے نوازا وہاں اس کے ایک حق، حق مہر کے لئے بھی باضابطہ قانون بنایا۔اس قانون کی رو سے حق مہر کا بنیادی مقصد بیوی کو تحفظ دینا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مہر کی مقدار کے حوالے سے قنطار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے لغوی معنی”سونے کے ڈھیر” کے ہیں جسے ہر قیمت پر ادا کرنا فرض ہے۔ اس میں کسی حیلے کی گنجائش نہیں۔
مہر کی رقم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اگر مہر موجل (Payable on demand)مانگنے پر شوہر، لڑکی کو ادا نہیں کرتا تو ایسی صورت میں لڑکی نہ صرف حقوق زوجیت ادا کرنے سے انکار کر سکتی ہے بلکہ شوہر سے علیحدہ بھی رہ سکتی ہے۔
طلوع اسلام سے پہلے لوگ دوسرے مال کی طرح اپنے مرحوم رشتے داروں کی بیویوں کے وارث بن جاتے تھے۔ اگر چاہتے تو بے مہر انہیں اپنی زوجیت میں رکھتے یا کسی اور کے ساتھ شادی کر دیتے اور مہر لے لیتے تھے یا عورت کو قید کر دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے برسرمنبر فرمایا کہ
“عورتوں کا مہر زیادہ نہ رکھو۔” ایک عورت نے کہا کہ
“اے ابن خطاب! اللہ ہمیں دیتا ہے اور تم منع کرتے ہو۔”
امیر المومنین نے فرمایا:
“اے عمر! تجھ سے ہر شخص زیادہ سمجھدار ہے۔ جو چاہو مقرر کرو۔”
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کا مہر پانچ سو درہم یا اس قیمت کے اونٹ تھے۔ حضرت جویریہؓ کا مہر چار سو درہم حضرت ام حبیبہؓ کا چار سو درہم اورحضرت سودہؓ کا مہر چار سو درہم تھے۔اس دور میں ایک اونٹ کی قیمت چار سو درہم تھی اور اونٹ محض دودھ اور گوشت کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ باربرداری کے لئے صحرائی جہاز کی حیثیت رکھتا تھا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 54 تا 55
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔