تیسری آنکھ
مکمل کتاب : پیرا سائیکالوجی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=7913
ماضی، حال اور مستقبل بنیادی طور پر بیداری اور نیند ہیں۔ جب کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ نیند زندگی نہیں ہے۔ علوم ظاہر کے دانشور جب نیند اور خواب کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو خواب کو ایک خیالی زندگی کہہ کر گزر جاتے ہیں جب کہ خواب اور بیداری کی زندگی الگ الگ نہیں ہے۔ صرف حواس کی درجہ بندی ہے۔ بیداری کے حواس میں اپنے اوپر پابندی محسوس کرتے ہیں اور خواب کے حواس میں خود کو پابندی سے آزاد دیکھتے ہیں۔ سفر ایک ہے فرق صرف پابندی اور آزادی کا ہے۔
مراقبہ انسان کو حواس کے دونوں رخوں سے متعارف کراتا ہے۔ متعارف ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی تھکان کی وجہ سے ارادتاً پابندی کے حواس سے ہٹ کر ایسے حواس میں قدم رکھنا چاہتا ہے جہاں پابندی نہیں ہے۔
آدمی اعصابی تھکان کی وجہ سے جب سکون چاہتا ہے اور دنیاوی آلام و مصائب اور رنج و غم سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو طبیعت اسے اس زندگی میں لے جاتی ہے جس زندگی کا نام نیند ہے۔ رات اور دن کے شعور میں ردّ و بدل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ:
① آدمی اعصابی طور پر بے بس ہو کر سو جائے، اور
② دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی سکون کے ساتھ اپنے ارادے اور اختیار سے بیدار رہتے ہوئے نیند کے حواس میں منتقل ہو جائے۔ جس مناسبت سے نیند کے حواس بیداری میں منتقل ہوتے ہیں اسی مناسبت سے ماورائی حواس میں ترقی شروع ہو جاتی ہے۔
آدمی سونے کے لئے لیٹتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اعصاب کا کھنچاؤ نرمی اور خمار میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ خمار جب ذرا گہرا ہوتا ہے تو آنکھوں میں ہلکی سی کھٹک ہوتی ہے اورآنکھوں میں پتلیوں کی حرکت بتدریج کم ہو کر ساکت ہو جاتی ہے۔ خمار میں جیسے ہی گہرائی واقع ہوتی ہے آدمی غنودگی کے عالَم میں چلا جاتا ہے۔ غنودگی کا مطلب یہ ہے کہ شعوری حواس… لاشعوری حواس میں منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ غنودگی جب اپنے عروج کو پہنچتی ہے یعنی شعوری حواس لاشعور میں منتقل ہو جاتے ہیں تو آدمی سو جاتا ہے۔ یہ زندگی کا روٹین اور مسلسل عمل ہے جو ہر ذی روح کی زندگی میں جاری ہے۔ جس طرح ایک آدمی محنت و مشقت، کام کاج، ذہنی انتشار اور اعصابی تھکان کی وجہ سے سونے پر مجبور ہے اسی طرح بکری، بلی، کبوتر، چڑیا، مچھلی بھی شعوری حواس سے منتقل ہو کر لاشعوری حواس میں منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ بیداری کے بعد سونے اور سونے کے بعد بیدار ہونے کا عمل ہر مخلوق میں موجود ہے۔
آدم کو اللہ کریم نے اپنی صفات کا وہ علم عطا کیا ہے جو علم دوسری مخلوقات کو عطا نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم سب کا سب غیبی انکشافات ہیں۔ غیبی انکشافات سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے بندے کے اندر ایسی صلاحیتیں منتقل کر دی ہیں جن صلاحیتیوں کو استعمال کر کے بندہ غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ چونکہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ غیب کی دنیا میں اللہ کی صناعی کا مشاہدہ کرے اور اللہ کی صفات کا عرفان حاصل کرے اس لئے یہ ضروری ہو گیا کہ بندہ کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہوں جن صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خالقِ کائنات کا منشاء پورا ہو۔
پابند زندگی بیداری ہے اور آزاد زندگی نیند کی دنیا ہے۔ کوئی بھی انسان مراقبہ کے ذریعہ بڑی آسانی کے ساتھ خواب یا نیند کی دنیا میں داخل ہو سکتا ہے۔
مراقبہ دراصل بیداری کے حواس میں رہتے ہوئے خواب دیکھنا ہے یعنی ایک آدمی بیدار ہے جاگ رہا ہے، شعوری حواس کام کر رہے ہیں، زمین کے اردگرد موجود ماحول اور فضا سے متأثر بھی ہو رہا ہے اور خواب بھی دیکھ رہا ہے۔
مثال:
ایک شخص اپنے جگری دوست کو خط لکھتا ہے۔ خط لکھنے میں اس کا دماغ بھی کام کرتا ہے اس کا ہاتھ بھی چلتا ہے وہ جس ماحول میں موجود ہے وہاں پھیلی ہوئی آوازیں بھی سنتا ہے۔ کوئی آدمی اگر بات کر رہا ہے اس بات کا مفہوم بھی اس کے ذہن میں منتقل ہو رہا ہے، کوئی اس سے سوال کرتا ہے تو وہ اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ فضا میں خُنکی ہے تو سردی محسوس کرتا ہے، گرمی ہے تو گرمی کو بھی محسوس کرتا ہے۔
اِن سب باتوں کے باوجود خط لکھتا ہے تو شعور میں الفاظ کے معنی اور مفہوم بھی منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ ایک آدمی اپنے اندر چھپی ہوئی کئی صلاحیتوں کو بیک وقت استعمال کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح کوئی بندہ بیداری میں رہتے ہوئے نیند اور خواب کے حواس کو بھی اپنے اوپر منعکس کر لیتا ہے۔ اس کے اندر لاشمار صلاحیتیں متحرّک ہو جاتی ہیں۔ وہ بیدار زندگی میں رہتے ہوئے بھرپور ماورائی حواس کے ساتھ غیب کی دنیا میں شب و روز گزارتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 96 تا 99
پیرا سائیکالوجی کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔