کوئل
مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2806
محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے عاشقوں میں ایک عاشق زنخا “کوئل” بھی تھا۔ گاؤں میں اس کا کچا گھر تھا۔ آپؒ کی یاد میں گم رہتا تھا اور کبھی کبھی پیروں میں گھنگرو باندھ کر ناچنے اور گانے لگتا تھا، اس کی جادو بھری آواز فضا کو مسحور کر دیتی تھی۔ سریلی آواز کی وجہ سے لوگ اسے کوئل پکارتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک پیر صاحب اپنے بہت سارے مریدوں کے ساتھ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار پر حاضری کے لئے جا رہے تھے، پیر صاحب کی سواری گاؤں سے گزری تو ایک کچے مکان سے گانے کی آواز آئی، مکان کے قریب پہنچے تو دروازہ کھلا ہوا تھا اور صحن میں کوئل رقص طاؤس میں محو تھا، گانے میں اتنا سحر تھا کہ پیر صاحب صحن میں جا کر گانا سننے لگے، کچھ دیر کے بعد خیال آیا کہ گانا سننا ناجائز ہے، ان کی پیشانی شکن آلود ہو گئی اور واپس ہونے لگے تو کوئل ان کے قریب آیا اور بہت ادب سے عرض کیا:
“اے ہے میاں! مجھے گنہگار کی ایسی قسمت کہاں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں۔”
پیر صاحب نے غصے سے کہا:
“خاموش! ہم محبوب الٰہی کی خدمت میں حاضری دینے جا رہے ہیں، یہاں گانے کی آواز سن کر ہم دیکھنے کے لئے رک گئے کہ کون گا رہا ہے۔ ”
پیر صاحب نے سوچا کہ کچھ دیئے بغیر چلے جانا وضع داری کے خلاف ہے چنانچہ انہوں نے ایک روپے کا سکہ نکال کر کوئل کی طرف بڑھا دیا۔ کوئل نے روپیہ لے کر دوبارہ پیرصاحب کی طرف بڑھا دیا اور کہا:”میاں جی! یہ ایک روپیہ خواجہ محبوب الٰہی کی نذر کر دینا، مزار شریف پر جا کر کہنا تمہاری کوئل نے نذرانہ بھیجا ہے، مزار شریف سے ہاتھ باہر آئے تو نذر دینا ورنہ کہیں اور خرچ کر دینا۔”پیرصاحب کو روپیہ لینے میں ہچکچاہٹ ہوئی، کوئل نے کہا:”میاں جی! پریشان نہ ہوں یہ روپیہ آپ کی پاک کمائی ہے، لے لیں مجھ نگوڑی کے پاس کیا رکھا ہے۔”پیرصاحب نے روپیہ رکھ لیا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے مزار پر حاضری کے بعد انہیں کوئل کی نذر کا خیال آیا۔ پہلے شش و پنج میں رہے کہ نذر پیش کریں یا نہ کریں لیکن پھر روپیہ نکال کر کہا:”حضور یہ کوئل کی نذر ہے۔”سی وقت مزار میں سے ہاتھ باہر نکلا۔ پیر صاحب نے روپیہ ہتھیلی پر رکھ دیا، مٹھی بند ہوئی اور جس طرح قبر سے ہاتھ باہر آیا تھا اسی طرح قبر کے اندر غائب ہو گیا۔
یہ منظر دیکھ کر پیر صاحب پر اضطراب طاری ہو گیا اور بے تحاشہ رونے لگے۔ حضرت محبوب الٰہی کی نظروں میں کوئل کا مقام دیکھ کر وہ سخت نادم و پشیماں ہوئے۔ اسی کیفیت میں تھے کہ ان پر غنودگی طاری ہو گئی، انہوں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ، خواجہ غریب نوازؒ اور سلطان الہند حضرت معین الدین چشتیؒ سفید چاندنی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور درمیان میں کوئل رقص کرتا ہوا نغمہ سرا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے خوش ہو کر حضرت غریب نوازؒ سے فرمایا:
“حضور! آپ نے ہماری کوئل کو دیکھا؟”
حضرت خواجہ غریب نواز مسکرائے اور خوشنودی کا اظہار کیا۔
پیر صاحب کی آنکھ کھل گئی، ظاہر بینی کا خول ان پر سے اتر چکا تھا وہ فوراً اٹھے اور گرتے پڑتے کوئل کے گھر پہنچے۔ اپنی دستار پھینک دی اور کوئل کے پیر پکڑ لئے، کوئل نے پیر کھینچتے ہوئے کہا:
“اے میاں جی! کیا کرتے ہو مجھ گندگی سے کیوں اپنے ہاتھ ناپاک کرتے ہو۔”
کوئل کے بہت کہنے سننے کے باوجود بھی پیرصاحب نے اس کے پیر نہ چھوڑے۔ کوئل کے پوچھنے پر انہوں نے سارا واقعہ بتایا تو کوئل کی عجیب حالت ہو گئی۔ وہ دیوانہ وار اٹھا اور رقص کرتے ہوئے گانے لگا، وہ جھوم جھوم کر گاتے گاتے ایک دم فرش پر گرا، پیر صاحب قریب پہنچے تو کوئل کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 250 تا 252
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔