نسوانی حقوق

مکمل کتاب : ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2580

“اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔”

(سورۃ النساء: ۱)

مفہوم یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی چشمہ کی دو نہریں ہیں۔

اسلام سے قبل عورتوں کی حیثیت یہ تھی کہ مرد سے اپنی میراث سمجھتا تھا۔ عورت کی رضامندی یا مشورے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ مرد جہاں چاہے عورت کو فروخت کر دیتے تھے۔

اسلام نے عورت کے مردوں کی میراث ہونے کے تصور کو ختم کر دیا۔ قرآن میں واضح طور پر ارشاد ہے کہ

“قیامت کے دن مر داور عورت یکساں ہونگے۔ جزا یا سزا سب کو ان کے اعمال کے مطابق ملے گی۔”

“رشتوں کا خیال رکھو۔ اللہ تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔”

(سورۃ النساء: ۱)

“مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس واسطے کہ بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر اور اس  لئےکہ خرچ کئے انہوں نے اپنے مال۔”

(سورۃ النساء :۵۴)

اسلام نے مرد کو جو برتری دی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ مرد کو خاندان کا سربراہ وکفیل بنایا گیا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جسمانی طور پر عورتوں سے زیادہ طاقت دی ہے۔ لیکن بہت سے حالات میں عورت وہ کچھ کرتی ہے جو مرد نہیں سکتا۔ مثلاً نومہینے بچے کو پیٹ میں غذا فراہم کرنا۔ پیدائش کے بعد سوا دو سال تک دودھ پلانا۔ بزرگ خواتین و حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ ایک بچے کا کام چار بڑے آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔

“اور ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں تاکید کی کہ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا۔ کمزوری پر کمزوری جھیلی اور دو برس بعد دودھ چھڑایا۔ یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ آخر مجھ ہی تک آنا ہے۔”

(سورۃ لقمان: ۱۴)

اسلام نے عورت کو حق دیا کہ وہ انفرادی طور پر کاروبار اور معاشرتی روابط قائم کر سکتی ہے۔ جائداد رکھ سکتی ہے۔ غرض ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ صحابیاتؓ اور دیگر معروف مسلمان خواتین کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے ملازمت، کاروبار، زراعت، تبلیغ، طب، فوج اور دیگر تمام شعبوں میں آزادانہ کام کیا ہے۔

دور جاہلیت میں عورت کو کمزور، لاغر، بیوقوف اور ناقص العقل کہا جاتا تھا اور شادی کے معاملے میں والدین یا ولی کی رضامندی ضروری سمجھی جاتی تھی۔اسلام نے جہاں ماں باپ کی وراثت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں عورت کے حقوق متعین کئے ہیں وہاں شادی جیسے اہم مسئلے پر بھی اس کی رائے اور رضامندی کو نظر انداز نہیں کیا۔ اگر ایک عاقل اور بالغ لڑکی برضا و رغبت شادی کے لئے رضامند نہ ہو تو شادی نہیں ہو سکتی۔

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کنواری عورت سے نکاح کے معاملے میں اجازت حاصل کی جائے اگر دریافت کرنے پر وہ خاموش رہے تو اسی کو اس کی اجازت سمجھا جائے اور اگر انکار کرے تو اس پر جبر نہیں کرنا چاہئے۔

(ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی)

حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے وہ اس نکاح سے ناخوش ہے۔ آپﷺ نے اسے نکاح ختم کرنے کا اختیار دے دیا۔ (ابو داؤد)

حضرت خنساءبنتِ خدامؓ کہتی ہیں کہ وہ بیوہ تھیں ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا وہ اس نکاح سے ناخوش تھیں۔ انہوں نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق عرض کیا۔ آپﷺ نے وہ نکاح رد کر دیا۔ (بخاری)

حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ بریرہؓ کا شوہر ایک نحیف سیاہ فام غلام تھا۔ وہ مدینہ کی گلیوں میں روتا ہوا بریرہؓ کے پیچھے پیچھے پھرتا تھا، آنسوؤں سے اس کی داڑھی بھیگ جاتی تھی۔ نبی کریمﷺ نے ایک روز فرمایا:

’’عباسؓ! کیا تمہیں اس پر تعجب اور حیرت نہیں ہے کہ مغیث، بریرہ کو چاہتا ہے اور بریرہ اس سے نفرت کرتی ہے؟‘‘
پھر آپﷺ نے بریرہ سے فرمایا:

“بریرہ! کاش تو رجوع کر لیتی ” یعنی مغیث سے دوبارہ نکاح کر لیتی۔

بریرہؓ نے عرض کیا:

“یا رسول اللہﷺ! کیا آپﷺ مجھے حکم دیتے ہیں؟”

آپﷺ نے فرمایا کہ “میں حکم نہیں دیتا سفارش کرتا ہوں۔”

بریرہؓ نے عرض کیا:”مجھے اس کی ضرورت نہیں۔”(بخاری)

زمانہ جاہلیت میں مرد کھڑے کھڑے تین دفعہ طلاق کے الفاظ کہہ کر اپنی بیوی کو علیحدہ کر دیتا تھا۔ اسلام نے اس طریقے کو ختم کر کے ایک لائحہ عمل بنایا کہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی صورت میں دونوں کے خاندانوں میں سے ایک ایک ثالث مقرر کیا جائے۔ اور وہ ان میں صلح کرانے کی کوشش کریں۔ اگر کامیاب نہ ہوں تو پھر تین وقفوں سے طلاقیں دی جائیں۔

اسلام نے طلاق کی اجازت شدید ضرورت میں دی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
“اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔”

(ابو داؤد۔ ابن ماجہ)

حضرت محمود بن لبیدؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کو بتایا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین ایک ساتھ طلاقیں دی ہیں۔ آپﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا:

“کیا خدا کی کتاب کے ساتھ کھیل کرتے ہو؟ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔”

(نسائی)

“عورت کو طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کامزہ چکھتے پھریں۔”

(الفصاحت)
شیطان اپنے گروہ میں سب سے اچھا اسے مانتا ہے جو میاں بیوی میں تفریق کرا دے۔

(مشکوۃ)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 49 تا 53

ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے مضامین :

انتساب 1 - مرد اور عورت 2 - عورت اور نبوت 3 - نبی کی تعریف اور وحی 4 - وحی میں پیغام کے ذرائع 5 - گفتگو کے طریقے 6 - وحی کی قسمیں 7 - وحی کی ابتداء 8 - سچے خواب 10 - حضرت محمد رسول اللہﷺ 10 - زمین پر پہلا قتل 11 - آدم و حوا جنت میں 12 - ماں اور اولاد 13 - حضرت بی بی ہاجرہؑ 14 - حضرت عیسیٰ علیہ السلام 15 - نبی عورتیں 16 - روحانی عورت 17 - عورت اور مرد کے یکساں حقوق 18 - عارفہ خاتون ‘‘عرافہ’’ 19 - تاریخی حقائق 20 - زندہ درگور 21 - ہمارے دانشور 22 - قلندر عورت 23 - عورت اور ولایت 24 - پردہ اور حکمرانی 25 - فرات سے عرفات تک 26 - ناقص العقل 27 - انگریزی زبان 29 - عورت کو بھینٹ چڑھانا 29 - بیوہ عورت 30 - شوہر کی چتا 31 - تین کروڑ پچاس لاکھ سال 32 - فریب کا مجسمہ 33 - لوہے کے جوتے 34 - چین کی عورت 35 - سقراط 36 - مکاری اور عیاری 37 - ہزار برس 38 - عرب عورتیں 39 - دختر کشی 40 - اسلام اور عورت 41 - چار نکاح 42 - تاریک ظلمتیں 43 - نسوانی حقوق 44 - ایک سے زیادہ شادی 45 - حق مہر 46 - مہر کی رقم کتنی ہونی چاہئے 47 - عورت کو زد و کوب کرنا 48 - بچوں کے حقوق 49 - ماں کے قدموں میں جنت 50 - ذہین خواتین 51 - علامہ خواتین 52 - بے خوف خواتین 53 - تعلیم نسواں 54 - امام عورت 55 - U.N.O 56 - توازن 57 - مادری نظام 58 - اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت 59 - آٹھ لڑکیاں 60 - انسانی حقوق 61 - عورت کا کردار 62 - دو بیویوں کا شوہر 63 - بہترین امت 64 - بیوی کے حقوق 65 - بے سہارا خواتین 66 - عورت اور سائنسی دور 67 - بے روح معاشرہ 68 - احسنِ تقویم 69 - ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین 70 - ایک دوسرے کا لباس 71 - 2006ء کے بعد 72 - پیشین گوئی 73 - روح کا روپ 74 - حضرت رابعہ بصریؒ 75 - حضرت بی بی تحفہؒ 76 - ہمشیرہ حضرت حسین بن منصورؒ 77 - بی بی فاطمہ نیشاپوریؒ 78 - بی بی حکیمہؒ 79 - بی بی جوہربراثیہؒ 80 - حضرت اُم ابو سفیان ثوریؒ 81 - بی بی رابعہ عدویہؒ 82 - حضرت اُمّ ربیعۃ الرائےؒ 83 - حضرت عفیرہ العابدؒ 84 - حضرت عبقرہ عابدہؒ 85 - بی بی فضہؒ 86 - اُمّ زینب فاطمہ بنتِ عباسؒ 87 - بی بی کردیہؒ 88 - بی بی اُم طلقؒ 89 - حضرت نفیسہ بنتِ حسنؒ 90 - بی بی مریم بصریہؒ 91 - حضرت ام امام بخاریؒ 92 - بی بی اُم احسانؒ 93 - بی بی فاطمہ بنتِ المثنیٰ ؒ 94 - بی بی ست الملوکؒ 95 - حضرت فاطمہ خضرویہؒ 96 - جاریہ مجہولہؒ 97 - حبیبہ مصریہؒ 98 - جاریہ سوداؒ 99 - حضرت لبابہ متعبدہؒ 100 - حضرت ریحانہ والیہؒ 101 - بی بی امتہ الجیلؒ 102 - بی بی میمونہؒ 103 - فاطمہ بنتِ عبدالرحمٰنؒ 104 - کریمہ بنت محمد مروزیہؒ 105 - بی بی رابعہ شامیہؒ 106 - اُمّ محمد زینبؒ 107 - حضرت آمنہ رملیہؒ 108 - حضرت میمونہ سوداءؒ 109 - بی بی اُم ہارونؒ 110 - حضرت میمونہ واعظؒ 111 - حضرت شعدانہؒ 112 - بی بی عاطفہؒ 113 - کنیز فاطمہؒ 114 - بنت شاہ بن شجاع کرمانیؒ 115 - اُمّ الابرارؒ (صادقہ) 116 - بی بی صائمہؒ 117 - سیدہ فاطمہ ام الخیرؒ 118 - بی بی خدیجہ جیلانیؒ 119 - بی بی زلیخاؒ 120 - بی بی قرسم خاتونؒ 121 - حضرت ہاجرہ بی بیؒ 122 - بی بی سارہؒ 123 - حضرت اُم محمدؒ 124 - بی بی اُم علیؒ 125 - مریم بی اماںؒ 126 - بی اماں صاحبہؒ 127 - سَکّو بائیؒ 128 - عاقل بی بیؒ 129 - بی بی تاریؒ 130 - مائی نوریؒ 131 - بی بی معروفہؒ 132 - بی بی دمنؒ 133 - بی بی حفضہؒ 134 - بی بی حفصہؒ بنت شریں 135 - بی بی غریب نوازؒ (مائی لاڈو) 136 - بی بی یمامہ بتولؒ 137 - بی بی میمونہ حفیظؒ 138 - بی بی مریم فاطمہؒ 139 - امت الحفیظؒ (حفیظ آپا) 140 - شہزادی فاطمہ خانمؒ 141 - بی بی مائی فاطمہؒ 142 - بی بی راستیؒ 143 - بی بی پاک صابرہؒ 144 - بی بی جمال خاتونؒ 145 - بی بی فاطمہ خاتونؒ 146 - کوئل 147 - مائی رابوؒ 148 - زینب پھوپی جیؒ 149 - بی بی میراں ماںؒ 150 - بی بی رانیؒ 151 - بی بی حاجیانیؒ 152 - اماں جیؒ 153 - بی بی حورؒ 154 - مائی حمیدہؒ 155 - لل ماجیؒ 156 - بی بی سائرہؒ 157 - مائی صاحبہؒ 158 - حضرت بی بی پاک دامناںؒ 159 - بی بی الکنزہ تبریزؒ 160 - بی بی عنیزہؒ 161 - بی بی بنت کعبؒ 162 - بی بی ستارہؒ 163 - شمامہ بنت اسدؒ 164 - ملّانی جیؒ 165 - بی بی نور بھریؒ 166 - مائی جنتؒ 167 - بی بی سعیدہؒ 168 - بی بی وردہؒ 169 - بی بی عائشہ علیؒ 170 - بی بی علینہؒ 171 - اُمّ معاذؒ 172 - عرشیہ بنت شمسؒ 173 - آپا جیؒ 174 - حضرت سعیدہ بی بیؒ 175 - طلاق کے مسا ئل
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)