پرندے
مکمل کتاب : محبوب بغل میں
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13737
بچپن گزرا، جوانی آئی۔ جوانی گئی، بڑھاپا آیا، تیز گام بڑھاپا اب نامعلوم مگر معیّن سمت میں بھاگ رہا ہے۔ آدھی صدی سے زیادہ سالوں سے جسے میری دنیا ماضی کے نام سے جانتی ہے میرا عدم وجود بنا……..۔
پھر اس وجود نے پھیلنا اوربڑھنا شروع کیا۔ ننھی سی جان، زور آور سمجھی جانے لگی۔ معصوم، کومل تصویر کے نقوش میں تیکھا پن آ گیا۔ زبان نے تکلم کیا تو یہ سراپا کلیم بن گیا۔ منٹوں تک پلک نہ جھپکنے والی آنکھ بار بار جھپکنے لگی۔ سریلی آواز سے آشنا کان، کرخت آواز سے مانوس ہو گئے۔ جسم میں پانی کی جگہ خون دوڑنے لگا۔
خوشبودار پسینہ بدبو میں تبدیل ہو گیا۔ لطیف نورانی غذا کثافت بن گئی۔ خوش روی تند خوئی میں تبدیل ہو گئی۔ گوشت جو دراصل درندوں کی غذا ہے، آدمی کے لئے مرغوب بن گیا۔
ایک آدمی تھا، ایک پرندہ تھا۔ آدمی نے پرندے کی زندگی کو پرکھا اور پرندے نے آدمی کی زندگی پر غور کیا۔ دونوں کی سوچ جب ایک نقطہ پر آ گئی اور دونوں سوچیں باہم دِگر مل گئیں یعنی جان سے جان مل گئی……جان، جان سے ملی تو پرندے اور انسان کی مشترک قدریں ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئیں۔
ایک سوداگر تھا……اس نے انسانی وقار کو مجروح کر کے آدمیت کے روپ میں، دولت اور عقل کے زعم پر ایک طوطا خریدا۔ مشترک قدر، قوّت و نطق سے دونوں کے اندر انتقالِ خیال کا عمل جاری ہوا……دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھنے لگے اور ایک دوسرے سے باتیں کرنا مشغلہ بن گیا۔
طوطا اپنا نَسب نامہ سناتا تھا کہ میں آزاد پنچھی تھا۔ اپنے قبیلے اور قوم کے ساتھ فضاؤں اور آسمانی وسعتوں میں پرواز کرتا تھا۔ باغوں میں سے پھل کھاتا تھا۔ ہری بھری شاخوں پر جھولا جھولتا تھا۔
قسمت کا مارا، اپنے قبیلے اور قوم سے بچھڑ گیا۔ بھوکا پیاسا اِدھر سے اُدھر اُڑتا پھرتا تھا کہ ایک جگہ زمین پر دانہ پڑا ہوا دیکھا۔ بلندیوں کا مکین، اعلیٰ غذاؤں سے پیٹ بھرنے والا، میں پنچھی، دانہ دیکھ کر صبر نہ کر سکا۔ اونچی پرواز بھول کر نیچی اُڑان سے اسفل میں گرتا چلا گیا……ابھی زمین پر پوری طرح پنجے بھی نہیں لگے تھے اور میں نے شکم سیری کے لئے ایک نوالہ منہ میں نہیں ڈالا تھا کہ دھوکے باز انسان نے رسی کو جھٹکا دیا اور میں جال میں قید ہو گیا۔ بہت پھڑپھڑایا۔ آزاد ہونے کی کوشش کی مگر میرا کچھ بس نہ چلا۔
اس دھوکے باز انسان نے بھوکا رکھ کر پنجرے میں محبوس کر کے بالجرہ مجھے اپنی زبان سکھائی اور جب میں نے اس بدنیت انسان کی زبان سیکھ لی تو اس نے بڑے مول تول سے مجھے تیرے ہاتھ بیچ دیا……
اے میرے محسن! تو نے میری قیمت لگائی ہے لیکن میں خوش نہیں ہوں۔ اگر تجھے میری طرح قید کر دیا جائے تو کیا خوش ہو گا؟
سوداگر نے طوطے کی باتیں سنیں تو خوش ہوا اور اس کی قیمت اس کے ذہن میں دو چند ہو گئی۔ مہینوں کے بعد سال گزرا تو سوداگر کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ سوداگر نے طوطے سے کہا کہ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں تیرا کوئی کام ہو تو بتا۔
طوطے نے کہا۔ اے میرے محسن! جب تو کسی باغ سے گزرے اور وہاں ان طوطوں کو دیکھے تو ان سے میرا سلام کہنا۔ اور کہنا تمہارا ایک بھائی قید و بند کی زندگی گزار رہا ہے اور تمہیں یاد کرتا ہے۔
سوداگر سفر میں جب ایک باغ سے گزرا تو اس نے وہاں بہت سارے طوطوں کو دیکھا جو آزادی کے ساتھ اُڑ رہے تھے اور طرح طرح کی بولیاں بول رہے تھے۔ سوداگر نے طوطوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا، تمہارے ایک بھائی طوطے کا پیغام ہے اور اس نے طوطے کا پیغام مِن و عَن سنا دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے درخت سے ایک طوطا گرا اور پھڑپھڑا کر موت کی نیند سو گیا۔ سوداگر کو بہت قلق ہوا اور افسوس کرتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔
سفر سے واپس آنے کے بعد سوداگر جب اپنے گھر پہنچا تو اس نے پنجرے میں بند طوطے کو ساری رُوئیداد سنائی۔ رُوئیداد کا سننا تھا کہ طوطا پنجرے میں گرا اور پھڑپھڑا کر مر گیا۔ سوداگر بہت رنجیدہ ہوا اور پنجرہ کھول کر نہایت افسوس کے ساتھ طوطے کو باہر پھینک دیا۔ ابھی سوداگر افسوس ہی کر رہا تھا کہ طوطا ٹیں ٹیں کرتا ہوا اڑا اور درخت پر جا بیٹھا۔
سوداگر نے حیرانی کے عالم میں طوطے سے کہا کہ تو بہت بے وفا نکلا۔ بتا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟
طوطا بولا! جنگل میں میرے قبیلے کے ایک دانشور طوطے نے مجھے یہ پیغام بھیجا کہ آزادی دو طرح نصیب ہو تی ہے۔
۱۔ اس طرح کہ قبیلہ متحد رہے اور اجتماعی جدوجہد سے اپنی آزادی کا تحفظ کرے۔
۲۔ اگر کوئی اپنے قبیلے سے بچھڑ جائے اور قید ہو جائے تو اس کے لئے آزادی کا طریقہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی جان ایثار کر دے اور آزادی کے تحفظ کے لئے مر جائے۔
میں نے اپنے قبیلے کے دانشور بزرگ کا پیغام سمجھ لیا اور میں اس کی نصیحت پر عمل کر کے آزاد ہو گیا۔
خدا حافظ
ٹیں، ٹیں، ٹیں، ٹیں……..۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 119 تا 122
محبوب بغل میں کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔