روحانی تصرّف کیا ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13453
سوال: مرشد کس طرح اپنے مرید پر روحانی تصرّف کرتا ہے؟
جواب: مثلاً یہ کہ وہ اپنے روحانی تصرّف سے مرید کو خواب کی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جس دنیا میں اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی زیارت اسے نصیب ہوتی ہے۔ مسلسل اور متواتر خواب کے مشاہدے کے بعد اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی طرزِ فکر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی طرزِ فکر پر ایک ایسا رنگ چڑھ جاتا ہے جو رنگ اولیاء اور پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے۔ اس کی باطنی آنکھ پر پیر و مرشد ایسی عینک لگا دیتا ہے کہ عینک کے اندر لگے ہوئے شیشے اسے وہی کچھ دکھاتے ہیں جو پیر و مرشد کی طرزِ فکر ہے۔ عام مثال سے اسے بہت آسانی کے ساتھ اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ عینک کے اندر جس قسم کے گلاس لگے ہوئے ہیں آدمی کو چیزیں اسی رنگ کی نظر آتی ہیں۔ عینک کے گلاس اگر سرخ ہیں تو اسے ہر چیز سرخ نظر آتی ہے۔ عینک کے گلاس اگر پیلے ہیں تو اسے ہر چیز پیلی نظر آتی ہے۔ عینک کے گلاس اگر صاف و شفاف اور مجلّیٰ ہیں تو اسے ہر چیز صاف و شفاف اور میّٰ نظر آتی ہے۔ عینک کے شیشے اگر دھندلے ہیں تو ہر چیز دھندلی نظر آتی ہے اور اگر عینک کے شیشے اندھے ہیں تو عینک آنکھ پر لگانے کے باوجود آنکھ اندھی رہتی ہے حالانکہ عینک لگانے کے بعد آنکھ کھلی ہوئی ہے۔ عینک کا شیشہ دراصل طرزِ فکر ہے۔ عینک کے اندر جس قسم کی طرزِ فکر کا گلاس فٹ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا اسے اسی طرح نظر آتی ہے۔ عینک کے اندر فٹ ہوا لینس اتنا صاف اور مجلّیٰ بھی ہو سکتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ آدمی میلوں پر موجود چیز دیکھ لیتا ہے اور عینک کے اندر لگا ہوا گلاس یا شیشہ اتنا اندھا بھی ہوتا ہے کہ عینک لگانے کے بعد آدمی کو اتنا بھی نظر نہیں آتا جتنا وہ عینک لگائے بغیر دیکھ لیتا ہے۔ یہ دیکھنا سمجھنا، چیزوں کی ماہیئت کو معلوم کرنا، تفکر کرنا ہر آدمی کے اندر موجود ہے بات صرف اتنی ہے کہ ان صلاحیتوں کا اسے استعمال نہیں آتا۔ پیر و مرشد چونکہ تفکر کی صلاحیتوں کے استعمال کو جانتا ہے اور اس کی تمام زندگی تفکر سے تعبیر ہے اس لئے جب مرید کے اندر پیر و مرشد کی صلاحیت منتقل ہوتی ہے تو تفکر کا بویا ہوا بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس بیج کو تناور درخت بننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ آدمی کا اپنا ذاتی ارادہ اور عقل و شعور ہے۔ روحانیت میں کوئی بندہ جب اپنی ذات کو سامنے لے آتا ہے اور عقل و شعور کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے تو اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اس کے اندر جو عقل و شعور کام کر رہا ہے اس کا تعلق اس طرزِ فکر سے ہے جس طرزِ فکر میں گہرائی نہیں ہے۔ حقیقت پسندی نہیں ہے۔ جس طرزِ فکر کو ثبات نہیں ہے۔ اب ہم اس بات کو اس طرح کہیں گے کہ ایک پیرو مرشد ہے۔ روحانی استاد ہے اور ایک شاگرد ہے۔ پیر و مرشد کو ہم مراد اور روحانی شاگرد کو ہم مرید کا نام دیتے ہیں۔
ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ بچہ وہی زبان بولتا ہے جو ماں باپ کی زبان ہے اور اس زبان کو سیکھنے کے لئے بچہ کے لئے کوئی درس و تدریس کا سلسلہ قائم کرنا نہیں پڑتا۔ بچہ جس طرح ماں باپ کو بولتے دیکھتا ہے وہی الفاظ اپنی زبان میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔ عمر کی مناسبت سے لفظ ٹوٹے پھوٹے ہوتے ہیں لیکن بالآخر وہ اپنی مادری زبان اس طرح بولتا ہے کہ جیسے یہ ہمیشہ سے سیکھا سکھایا پیدا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین جس طرح خورد و نوش کا انتظام کرتے ہیں بچہ بھی اسی طرح کھانا کھاتا ہے جس طرح ماں باپ کھاتے ہیں اس کو یہ بتانا نہیں پڑتا کہ کھانا اس طرح کھایا جاتا ہے۔ والدین جس قسم کا لباس پہنتے ہیں بچہ بھی اسی قسم کا لباس زیب تین کرتا ہے۔ ماحول اگر پاکیزہ، صاف اور ستھرا ہے تو بچے کا ذہن بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا رہتا ہے۔ والدین اگر گالیاں بکتے ہیں تو گھر میں بچے کے لئے گالی دینا کوئی خلاف معمول یا بری بات نہیں ہوتی۔ مختصراً یہ کہ بچے کے اوپر وہ تمام اثرات مرتّب ہوتے ہیں جو اس کے ماحول میں موجود ہیں۔ گھر کی چار دیواری اور والدین کی آغوش سے نکل کر جب بچہ گھر سے باہر کے ماحول میں قدم رکھتا ہے تو اس کے اوپر تقریباً وہ تمام اثرات مرتّب ہوتے ہیں جو ماحول میں موجود ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے دنیا میں نیا آنے والا کوئی فرد ذہنی طور پر آدھا ماحول کے زیرِ اثر ہوتا ہے اور آدھا والدین کی ذہنی افتاد سے مطابق ہوتا ہے۔ اس غیر اختیاری تربیت کے بعد ایک دوسرا دَور شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ والدین اپنے لخت جگر کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟ والدین اگر بچہ کے اندر خاندانی روایات اور خود نمائی کی عادات منتقل کر دیتے ہیں تو بچہ کے اندر خود نمائی کے اثرات غالب آ جاتے ہیں۔ والدین اگر بچہ کو صحیح تربیت کے ساتھ ایسے علوم سکھاتے ہیں جن علوم میں اخلاقیات کا زیادہ دخل ہوتا ہے تو بچہ بااخلاق ہوتا ہے اور شعور کی منزل میں داخل ہو کر ایک ایسا پیکر بن جاتا ہے جو معاشرے کے لئے عزت و توقیر کا باعث ہوتا ہے۔ والدین کی طرزِ فکر اگر دولت پرستی ہے تو اَولاد کے اندر بھی دولت پرستی کے رجحانات زیادہ مستحکم ہو جاتے ہیں اس تقریر کا مفہوم یہ نکلا کہ تربیت کے دو طریقہ کار ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 83 تا 85
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔