حضرت صالح علیہ السّلام
مکمل کتاب : محبوب بغل میں
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13419
حضرت صالح علیہ السلام سام بن نوحؓ کے بیٹے اِرم کی اولاد میں سے تھے۔ امام مغویؓ نے آپ کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے،
’’صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن حاور بن ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوحؑ ‘‘۔
حضرت صالحؑ جس قوم کی طرف مبعوث کئے گئے وہ ’’قومِ ثمود‘‘ کہلاتی تھی اور حجاز اور شام کے مابین عربوں کی مشہور تجارتی شاہراہ پر واقع ’’وادی القریٰ‘‘ میں آباد تھی۔ یہ شاہراہ یمن سے بحر ِاحمر کے ساحل کےساتھ ساتھ خلیج عقبہ کے کنارے سے نکل کر شام کو جاتی ہے۔
اس قوم کو ثمود اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کے جد اعلیٰ ثمود تھے۔ یہ قوم سامی اقوام کی ایک شاخ ہے اور قومِ عاد ہی کا بقیہ گروہ ہےجو کہ عادِ اُولیٰ کی ہلاکت کے وقت حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ گئے تھے۔ یہی لوگ عادِ ثانیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
قوم ثمود نہایت طاقتور تھی۔ لوگ طویل العمر تھے۔ فنِ سنگ تراشی اور تعمیرات کے ماہر تھے۔ یہ لوگ پہاڑوں کو کاٹ کر اس میں نہایت مہارت سے مکانات بناتے تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ الفجر میں ان کی اس صلاحیت کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی بستیوں کے کھنڈرات، شام اور حجاز کے درمیان آج بھی پائے جاتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو تحقیق کے دوران، وہاں ایک ایسا مکان بھی ملا ہے جسے شاہی حویلی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں متعدد کمرے تھے اور ایک بڑا حوض تھا اور یہ پوری عمارت پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی تھی۔ ان کھنڈرات کا تذکرہ عرب کے مشہور مورخ مسعودی نے بھی کیا ہے۔ یہ قوم حضرت ابراہیمؑ کی بعثت سے بہت پہلے گزری ہے۔
قوم ثمود بھی اپنے پیشتروں کی طرح بت پرست تھی اور شرک میں مبتلا تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ان ہی میں سے ایک برگزیدہ ہستی، حضرت صالحؑ کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا تا کہ آپ اس گمراہ قوم کی رہنمائی کریں اور انہیں اس بات کی طرف متوجہ کریں کہ کائنات کی ہر شئے خدا کی توحید و یکتائی پر شاہد ہے اور یقینی دلائل کے ساتھ ان کے گمراہ کن عقائد کو باطل ثابت کریں اور بتائیں کہ پرستش اور عبادت کے لائق ہستی وہ ہے جس نے تمام کائنات کو تخلیق کیا ہے۔
حضرت صالحؑ نے پیغمبروں کی سنت کے مطابق ہدایت و تبلیغ شروع کر دی۔ اور لوگوں نے اپنے آباء و اَجداد کا شیوہ اختیار کر لیا۔حضرت صالحؑ کو جھٹلایا گیا اور تمسخر اڑایا گیا۔ لوگوں نے کہا۔’’اے صالح! تو ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں پھر کیا ہوا کہ تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکتا ہے، جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں، ہمیں تیری کسی بات کا یقین نہیں ہے۔‘‘
حضرت صالحؑ انہیں بار بار سمجھاتے اور نصیحت فرماتے رہے مگر قوم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔ لوگوں کا بُغض و عِناد بڑھتا رہا اور انہوں نے آپ کی شدید مخالفت شروع کر دی۔ البتہ ایک مختصر جماعت نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور چند لوگ ایمان لے آئے۔ قومِ ثمود کے افراد نہایت آسودہ حال تھے، مال و دولت کی فروانی سے ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی، انہیں عیش و عشرت کا ہر سامان میسر تھا۔ لہٰذا ان میں وہ تمام اخلاقی برائیاں پیدا ہو گئیں تھیں جو عموماً طاقت و قوت کے نشہ میں بدمست لوگوں میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ انہیں اپنی دولت و ثروت اور جسمانی قوت پر بڑا ناز تھا۔ قوم ثمود کے ارباب اقتدار اور صاحب حیثیت لوگ باطل پرستی میں اس قدر غرق ہو چکے تھے کہ حق و معرفت کی روشنی نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ اہلِ باطل حضرت صالحؑ کی تبلیغ کے جواب میں کہتے:
’’اے صالح! اگر ہم پسندیدہ طریقے پر نہیں اور ہمارے معبود باطل ہیں تو آج ہم کو یہ دھن دولت، سرسبز و شاداب باغات، سامانِ آسائش کی فروانی اور بلند اور عالی شان محلات حاصل نہ ہوتے۔ تو خود اپنی اور اپنے پیروکاروں کی بدحالی اور غربت پر غور کر اور ہمیں بتا کہ مقبول لوگ ہم ہیں یا تم اور تمہارے خستہ حال پیروکار۔‘‘
قوم کے اس گستاخانہ طرزِ کلام کے جواب میں حضرت صالحؑ نے فرمایا کہ تم اپنی خوشحالی اور عیش سامانی پر تکبر نہ کرو۔ وسائل کی یہ فراوانی تمہارے زورِ بازو کا نتیجہ نہیں ہے۔ نہ ہی ان وسائل کی فراہمی کو ہمیشہ برقرار رکھنا تمہارے اختیار میں ہے۔ یہ نعمتیں جو تمہیں حاصل ہیں اسی رحیم و کریم ذات کی عطا کردہ ہیں جو تمہارا اور کائنات کی ہر شئے کا خالق و مالک ہے اگر تم اس کے شکر گزار بندے بنو گے تو وہ تمہیں مزید انعامات و اکرامات سے نوازتا رہے گا۔ اور اگر تم نے کفران نعمت کیا اور ان نعمتوں کے حصول پر مغرور ہو گئے تو یہی وسائل تمہارے لئے اَدبار بن جائیں گے۔
آلِ ثمود اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ حضرت صالحؑ اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہیں۔ اپنی سرداری اور مال و دولت کے ذخائر پر تسلط کی بناء پر وہ گمان رکھتے تھے کہ اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے کے اہل ہم لوگ ہیں۔ وہ لوگ جو حضرت صالحؑ پر ایمان لے آئے تھے اہل باطل کی تحقیر و تضحیک کا نشانہ بنتے۔ یہ لوگ ایمان کی دولت سے سرفراز اہل بصیرت کو مخاطب کر کے پوچھتے:
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ صالح اپنے پروردگار کا بھیجا ہوا رسول ہے؟‘‘
جواب میں حضرت صالحؑ کے پیروکار کہتے کہ بیشک ہم اس کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بات منکرین کے لئے ناقابل برداشت تھی کہ ان کے علاوہ کسی اور شخصیت کے لئے لوگوں کے دلوں میں اس قدر ادب و احترام ہو کہ وہ اس کی کہی ہوئی بات کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لیں۔ اپنے اقتدار کے لئے وہ اسے خطرہ سمجھتے تھے۔ حضرت صالحؑ کی عزت و شرف کو ان کے پیروکاروں کی نظروں میں کم تر ثابت کرنے کے لئے وہ کہتے کہ ہم ہر اس بات کو رد کرتے ہیں اور ہر اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جو صالحؑ تمہارے سامنے بیان کرتا ہے۔
باطل پرستوں کا یہ جواب سطحی سوچ رکھنے والے ظاہر بین لوگوں کے لئے قابل ستائش تو ہو سکتا تھا لیکن وہ لوگ جن کے قلوب ایمان کے نور سے منور ہو چکے تھے۔ اس متکبّرانہ جواب سے قطعاً متاثر نہ ہوئے۔
اربابِ اختیار نے جب یہ دیکھا کہ معاشی طور پر کمزور لوگوں میں حضرت صالحؑ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے تو انہوں نے حضرت صالحؑ کو جھٹلانے کے لئے اور اللہ کے پیامبر ہونے کا غلط دعویدار ثابت کرنے کے لئے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اگر واقعی اپنے پروردگار کے فرستادہ بندے ہیں تو کوئی معجزہ دکھائیں۔ حضرت صالحؑ ان لوگوں کی فطرت سے واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ واضح نشانی دیکھ لینے کے بعد بھی تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہو اور کفر ترک نہ کرو؟
قوم کے چیدہ چیدہ سرداروں نے وعدہ کیا کہ اگر تم ہمارے مطالبے کے عین مطابق نشانی دکھا دو گے تو ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں گے۔
ظاہر پرست سرداروں کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ایسی نشانی کا مطالبہ کیا جائے جس کا پورا ہونا ناممکنات میں سے ہو اور جب حضرت صالحؑ ان کے مطالبہ کے مطابق معجزہ دکھانے میں ناکام رہیں گے۔ تب عوامُ النّاس خصوصاً حضرت صالحؑ کے پیرکاروں کے سامنے حضرت صالحؑ کو نبوّت کا جھوٹا دعوے دار ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ لہٰذا اپنی محدود عقل و فہم کے مطابق انہوں نے مطالبہ کیا کہ سامنے پہاڑ میں سے ایک ایسی اونٹنی ظاہر ہو جو اُسی وقت بچہ دے اور دودھ بھی دے۔
حضرت صالحؑ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کی اِستدعا قبول فرمائی اور پہاڑ میں ایک ٹھوس چٹان پھٹ گئی جس میں سے ایک نہایت عظیم الجثہ اونٹنی برآمد ہوئی۔ اونٹنی نے ظاہر ہوتے ہی ایک بچے کو جنم دیا۔ حضرت صالحؑ نے قوم سے فرمایا:
’’تم کو پہنچ چکی ہے دلیل تمہارے ربّ کی طرف سے، یہ اونٹنی اللہ کی، اِس سے ہے تم کو نشانی، سو اِس کو چھوڑ دو، کھائے اللہ کی زمین میں، اور اس کو ہاتھ نہ لگاؤ بری طرح، پھر تم کو پکڑے گی دکھ کی مار۔‘‘ (سورۃ الاعراف)
حق و صداقت کی یہ واضح نشانی دیکھ کر کچھ لوگ حضرت صالحؑ پر ایمان لے آئے مگر بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے جہالت کی تاریکیوں کو ہدایت کے نور پر ترجیح دی۔
حضرت صالحؑ نے قوم کے تمام افراد کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ نشانی تمہاری طلب پر بھیجی گئی ہے۔ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر کی جائے۔ ایک دن اونٹنی اور اس کے بچے کے لئے چشمے کا پانی مخصوص ہو گا اور اس دن قوم کا کوئی فرد یا ان کے جانور چشمے کے پانی کو استعمال میں نہیں لائیں گے جبکہ ہفتہ کے باقی دن وہ لوگ اور ان کے جانور چشمے کا پانی استعمال کریں۔ حضرت صالحؑ نے قوم ثمود سے وعدہ لیا کہ اونٹنی کو ضرر نہیں پہنچائیں گے۔ سرداروں نے اس بات کو ماننے کے لئے یہ شرط رکھی کہ وہ اونٹنی کو اپنی چراگاہوں میں چرنے کی اجازت اس صورت میں دیں گے کہ انہیں اونٹنی کا دودھ میسر ہو۔
اگرچہ قوم اس حیرت انگیز معجزہ کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائی تھی لیکن حضرت صالحؑ سے کئے ہوئے اقرار نے انہیں اس بات سے باز رکھا کہ وہ اس ناقہ کو ضرر پہنچائیں چنانچہ یہ معمول بن گیا۔ اونٹنی اور اس کا بچہ ایک روز چشمہ کا پانی استعمال کرتے اور اس روز کسی اور چشمہ کا پانی استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ قوم اونٹنی کا دودھ اپنے استعمال میں لاتی اور اس کے بدلے اونٹنی اپنے بچے سمیت بلا روک ٹوک چراگاہوں میں چرتی رہتی۔
آل ثمود زور آور قوم تھی۔ اگرچہ وہ لوگ اپنے وعدے پر قائم تھے لیکن حضرت صالحؑ کی تبلیغ حق انہیں کھٹکتی رہتی تھی۔ حضرت صالحؑ سے تو وہ پہلے ہی نالاں اور بیزار تھے۔ اب اونٹنی اور اس کے بچے کی وجہ سے ان پر پانی کے استعمال پر ایک روز کی پابندی بھی لگ گئی تھی۔ یہ بات ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ سو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے اونٹنی کو کاٹ ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور اس ناپاک منصوبہ پر عمل درآمد کرنے کے لئے چند افراد کو آمادہ کر لیا۔ ایک روز جبکہ اونٹنی اپنے بچے کے ہمراہ چراگاہ میں گھاس چر رہی تھی۔ انہوں نے موقع پا کر اس کو مار ڈالا۔ وہ جب اونٹنی کو زیر کرنے میں مصروف تھے تب اونٹنی کا بچہ وہاں سے بھاگ نکلا۔ چند ایک نے اس کا پیچھا کیا لیکن وہ ان کی دسترس سے باہر رہا اور پہاڑ پر چڑھ کر کرب ناک آواز سے چلانے لگا۔ روایت ہے کہ بچہ اُسی پتھر میں داخل ہو گیا جس پتھر سے اونٹنی باہر نکلی تھی۔
حضرت صالحؑ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو انہیں بے حد افسوس ہوا۔ انہوں نے نافرمان قوم کو مخاطب کر کے کہا کہ تم لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے ہو۔ غصّہ اور انتقام کے جذبہ نے تمہیں اندھا کر دیا ہے۔ تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اب اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ اللہ کا عذاب نافرمانوں پر نازل ہو کر رہے گا۔
شک و وسواس میں مبتلا قوم ثمود نے حضرت صالحؑ سے پوچھا تیرے پروردگار کا عذاب کب آئے گا۔ حضرت صالحؑ نے جواب میں انہیں تین دن کا وقت بتایا۔ تین دن بعد بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آل ثمود پر نازل ہوا۔ سوائے حضرت صالحؑ اور ان پر ایمان لانے والے افراد کے پوری قوم ہلاک اور تباہ و برباد کر دی گئی۔ عذاب الٰہی سے بچ جانے والے یہی لوگ ثمودِ ثانیہ کہلاتے ہیں۔
سورۃ ہود میں گم کردہ راہ اور نافرمان قوم ثمود پر نازل ہونے والے عذاب کا تذکرہ اس طرح ہے:
’’اور پکڑا اُن ظالموں کو چنگھاڑ نے، پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے جیسے کبھی رہے نہ تھے اُن میں، سن لو! ثمود منکر ہوئے اپنے ربّ سے، سن لو! پھکا ر ہے ثمود کو۔‘‘
حضرت صالح علیہ السلام نے حزن و ملال کے ساتھ ہلاک شدگان کو مخاطب کر کے فرمایا۔
’’اے قوم! بلا شبہ میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچایا اور تم کو نصیحت کی لیکن تم تو نصیحت کرنے والوں کو دوست ہی نہ رکھتے تھے۔‘‘
قرآن میں مذکور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو جھٹلایا، اُن کی تعلیمات کو ماننے سے انکار کیا، اُنہیں تمسخر و تضحیک کا نشانہ بنایا، وہ ہمیشہ خسارے میں رہے۔ ان کے اعمال کے پسِ پردہ ایسی طرزِ فکر کام کرتی ہے جو غرور و تکبر، بُغض و عِناد، شرپسندی، خود نمائی جیسے ناپسندیدہ عوامل کا مرکب ہوتی ہے۔ ان کے اندر حق و یقین کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ محدودیت کے خول میں اس طرح بند ہو جاتے ہیں کہ ان کی عقل و شعور پر جہالت کی تاریکی چھا جاتی ہے۔ ان کے کان ہوتے ہیں مگر وہ حق بات سننے سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی آنکھیں دیکھتی ہیں مگر ان کی بصارت گمراہی کے پردوں کے اس پار نہیں دیکھ سکتی۔ ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ وہ ظلمتوں میں اس طرح گم ہو جاتے ہیں کہ حق و صداقت اور معرفت کی روشن دلیل دیکھ کر بھی ان کے اندر یقین کے بجھتے دیئے روشن نہیں ہو پاتے۔ ایسے حقیقت نا آشنا اربابِ اختیار اپنی برتری اور اِقتدار کے دَوام کے لئے عوامُ النّاس کی سوچوں پر پہرے بٹھا دیتے ہیں۔ باطل عقائد اور برے اعمال کو باپ دادا کا طریق قرار دے کر لوگوں کو ان پر قائم رہنے کا پرچار کرتے ہیں۔ انبیاء اور ان کی تعلیمات کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کی باتوں پر خود کان دھرتے ہیں نہ اپنے دست نگر لوگوں کو ان کے پاس جانے دیتے ہیں۔
جب کوئی قوم اس کیفیت سے دوچار ہو جاتی ہے کہ فنا و بقا کے فارمولوں سے نا آشنا ہو جائے تو بالآخر ایک دن ایسا آتا ہے کہ ترقی کا فسوں ٹوٹ جاتا ہے اور وہ قوم زمین پر سے اس طرح اٹھا لی جاتی ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔
قرآن ببانگِ دہل اعلان کرتا ہے:
’’جو کوئی ایک ذرہ بھلائی کرے گا وہ اسے اپنے سامنے پائے گا اور جو کوئی ایک ذرہ برائی کرے گا وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔‘‘
(سورۃ الزلزال)
آیتِ مقدسہ میں تفکر ہم پر واضح کرتا ہے کہ مادی دنیا ایسی کھیتی ہے جس میں آخرت کی زندگی کے کانٹے یا پھولوں کے بیج ڈالے جاتے ہیں اگر کسی بندے نے شیطانی وسوسوں کے تحت اس زمین میں کانٹوں کی کھیتی بوئی ہے تو آخرت میں بھی کانٹے چُننا، کانٹے توڑنا اور کانٹے کھانا اس کا مقدر ہے۔ اور کسی بندے نے اگر اس مَزرعِ آخرت میں انبیاء کی تعلیمات کے مطابق اور ان کے وارث اولیاء اللہ کی زندگی کے اعمال و وظائف کی روشنی میں ایسی کاشت کی ہے جس کاشت کے نتیجے میں سایہ دار درخت پھول دار اور خوش نما باغات و جود میں آتے ہیں تو مرنے کے بعد اس کا اثاثہ یہی خوش نما باغات ہیں۔
بات سیدھی اور صاف ہے اس دنیا میں ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے مطابق ہم جزاء کے مستحق ہوتے ہیں یا عذاب ناک زندگی ہمارے اوپر مسلّط ہو جاتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث کے مطابق:
’’مر جاؤ مرنے سے پہلے‘‘
اس بات کی تشریح ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے یعنی مٹی سے وجود میں آنے والے حواس کے ساتھ یہ بات ہم جان لیں کہ اس دنیا کے بعد دوسری زندگی کا دارومدار ہمارے اپنے ذاتی اختیار اور عمل پر ہے۔
قرآن پاک نے اسی بات کو بار بار ارشاد کیا ہے:
’’تفکر کرو، عقل و شعور سے کام لو، زمین پر پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں کا کھوج لگاؤ۔‘‘
اپنی تخلیق پر غور کرو کہ کس طرح وجود میں آئے کس طرح اللہ کریم نے حفاظت کے ساتھ تمہیں پرورش کیا۔ پروان چڑھایا۔
تمہارے اوپر جوانی کا دور آیا۔ تمہیں اللہ نے طاقت عطا کی، ایسی طاقت کہ تم اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ زمین پر دوڑنے لگے اور اس ہی طاقت اور اختیار کے ساتھ زمین پر دوڑنے لگے اور اس ہی طاقت اور اختیار کے ساتھ زمین کی کوکھ میں سے تم نے اپنے لئے وسائل تلاش کئے۔ دریاؤں میں کشتیاں چلا دیں۔ علیٰ ہذالقیاس۔ اللہ نے تم کو اتنی بڑی طاقت عطا کی کہ زمین پر پھیلے ہوئے وسائل تمہاری دسترس میں آگئے۔ یہی بندہ جو ناقابل تذکرہ شئے تھا، پیدائش کے بعد اس قابل بھی نہ تھا کہ اپنے ارادے سے حرکت کر سکے، کروٹ بدل سکے یا بیٹھ سکے، مکھی اڑا سکے، اس گوشت پوست کے لوتھڑے کو اللہ نے اتنی سکت عطا کی کہ اس کے وجود سے اور اس کے اندر مخفی صلاحیتوں سے طرح طرح کی مصنوعات وجود میں آ گئیں۔
جب انسان مادّے کے اندر تفکر کرتا ہے تو اس مادّے کی طاقت اور توانائی کو اپنے لئے مفید بنا لیتا ہے یا ضرررساں بنا لیتا ہے۔ مادّی ترقی کے پس منظر میں ایک اور صلاحیت پوشیدہ ہے جس کو روح کا نام دیا جاتا ہے۔ مادّے کے اندر سے جو صلاحیتیں آشکارا ہو رہی ہیں وہ دراصل اسی روح کا ایک ہلکا سا عکس ہے۔ ابھی ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان اپنی زندگی میں جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اس کی جو کمائی ہوتی ہے اس کے مطابق اس کا صلہ ملتا ہے۔
اگر انسانی ذہن تفکر کے ساتھ عظیم طاقت بجلی کو تلاش کر سکتا ہے تو انسان اپنے اندر اس آنکھ کو بھی تلاش کر لیتا ہے جو آنکھ زمان و مکان سے ماوراء دیکھتی ہے۔ جس آنکھ کے سامنے اس زندگی اور مرنے کے بعد کی زندگی کے درمیان حائل پردے معدوم ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ آنکھ ہے جس سے اولیاء اللہ باطنی واردات اور کیفیات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وہ آنکھ ہے جو کھل جائے تو کشفُ القبور ہو جاتا ہے۔ یعنی مرنے والوں کی روح سے آدمی اس طرح گفتگو کر سکتا ہے جس طرح عالمِ اسباب میں رہتے ہوئے جسمانی خدوخال سے مرکب دو آدمی گفتگو کرتے ہیں۔ یہی وہ آنکھ ہے کہ اس آنکھ کی طاقت اور برکت سے اللہ کے دوست عرش پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتے ہیں۔ اس باطنی آنکھ کے سامنے سب سے پہلے جو چیز آتی ہے یہ وہ عالم ہے جس کو عالمِ اعراف یا موت کے بعد کی زندگی کہتے ہیں۔ یعنی گوشت پوست کے جسم سے رشتہ منقطع ہونے کے بعد آدمی جس دنیا میں قدم رکھتا ہے، باطنی آنکھ اس دنیا کو دیکھ لیتی ہے۔ جنّت میں چلے جانا اس کے لئے معمول بن جاتا ہے اور اس کے برعکس….
اگر جسمانی زندگی میں کسی بندے نے اپنی باطنی آنکھ نہیں کھولی تو اس کے اوپر محرومی مسلّط ہو جاتی ہے۔ مرنے کے بعد بھی اس کی نظر محدود رہتی ہے۔ جس طرح بندہ اس دنیا میں دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا۔ اس طرح اس دنیا میں بھی وہ کوتاہ نظر رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ باطنی نظر کس طرح کھلے؟ اس کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اولیاء اللہ نے اسباق ترتیب دیئے ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی روح سے اور روح میں پوشیدہ صلاحیتوں سے واقف ہو سکتے ہیں۔ روح سے واقف بندہ اس مادی دنیا کی حقیقت سے باخبر ہوتا ہے۔ غم و خوف اس پر مسلّط نہیں ہوتا اور وہ سکون آشنا زندگی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 21 تا 32
محبوب بغل میں کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔