رَحمۃَ لِّلعالمین
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13293
سوال: میں آپ کی تحریروں کو بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ ایک سوال میرے ذہن میں بہت دنوں سے موجود ہے۔ براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمایئے۔ اہلِ روحانیت کی کتابوں سے معلوم ہوا ہے کہ ہماری زمین کے علاوہ بھی بے شمار دنیائیں ہیں اور ان دنیاؤں میں اَن گنت مخلوقات آباد ہیں۔ آپ کی تحریروں سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ ان دنیاؤں میں بھی ہماری دنیاؤں کی طرح انسان، حیوان، نباتات اور جمادات موجود ہیں۔ وہاں کے انسانوں میں بھی ہماری طرح انسانی تقاضے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آقائے نامدارﷺ جنہیں اللہ نے تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، آپﷺ کا پیغام کیسے پہنچایا گیا؟ ان بے شمار دنیاؤں کی مخلوقات رسول اللہﷺ کی رحمت سے کس طرح مستفیض ہوتی ہیں؟
جواب: کائنات کی تخلیق کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو لامحالہ خالق اور مخلوق زیر بحث آتے ہیں۔ خالقِ کائنات اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور اس کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کے لئے وسائل مہیا کئے۔ وسائل سے مراد یہ ہے کہ مخلوق ان سے بیزار نہ ہو جائے۔ وسائل ضرورت کی کفالت بھی کرتے رہیں اور آنکھوں سے اوجھل بھی ہوتے رہیں۔ اگر وسائل اوجھل نہ ہوں گے تو مخلوق ان وسائل سے بیزار ہو جائے گی۔ اس فارمولے پر غور و فکر کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان، حیوان، زمین، سماوات اور پوری کائنات کی زندگی غیب و شُہود دو رخوں پر قائم ہے۔ غیب سے مراد نظروں سے اوجھل اور شُہود سے مراد نظر آنا ہے۔
آسان الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کی زندگی فنا و بقا پر قائم ہے اگر فنا نہیں ہو گی تو بقا کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ اگر بقا نہ ہو گی تو فنا بھی زیر بحث نہیں آئے گی۔ فنا اور بقا ایک ایسا عمل ہے جس کو کائنات کا تغیّر یا کائنات کی حرکت کہتے ہیں۔ خالق اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس میں تغیّر نہیں ہوتا تبدیلی نہیں ہوتی جبکہ مخلوق کا مفہوم ہی یہ ہے کہ اس کے اندر تغیّر ہوتا ہے۔ مخلوق محتاج ہوتی ہے جبکہ خالق کی ذات احتیاج، تغیّر اور تعطّل سے پاک ہے۔ خالق کی شناخت یہ ہے کہ وہ مخلوق کے بالکل برعکس ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا ’’ہوجا‘‘ (کُن) تو کائنات بن گئی۔ انسان، حیوانات، نباتات، جمادات، زمین اور آسمان میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب وجود میں آ گئیں۔ اب اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے مخلوق اور خالق کے درمیان ایک ایسی ہستی کی ضرورت تھی جو ہستی خالق سے قریب ترین بھی ہو لیکن مخلوق ہو چنانچہ جو ہستی پیدا فرمائی اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُورِي
’’اللہ نے سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا‘‘۔
بحیثیت مخلوق کے کائنات کا اوّل رخ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایا تو اپنے اور مخلوق کے درمیان پردہ رکھنے کے لئے رسول اللہﷺ کے نور کو تخلیق کیا۔ کائنات کی کسی مخلوق میں اتنی سکت نہیں ہے کہ کائنات میں جاری و ساری نظام کی تجلّیات کو براہِ راست قبول کر سکے۔
اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک پاور اسٹیشن ہے جہاں سے بجلی بن کر ہائی ٹینشن لائنوں میں مرحلہ بہ مرحلہ ہمارے روزمرّہ استعمال میں آتی ہیں۔ اگر ہائی ٹینشن سے آنے والی 20,000 واٹ بجلی سے براہِ راست بلب جلائیں تو وہ راکھ ہو جائے گا۔ ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح اللہ کی تجلّیات کا نزول پہلے سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام پر ہوتا ہے۔ نور نور کو قبول کرتا ہے۔ نور سے پھر نشریات ہوتی ہیں تو روشنی میں تبدیل ہو کر مخلوقات تک پہنچتا ہے۔
عالم ازل سے جو کچھ نزول ہو رہا ہے وہ پروگرام پہلے حضورﷺ قبول فرماتے ہیں اور پھر وہ پروگرام نشر ہو کر عالمِ ارواح میں پھیل جاتا ہے۔ پھر یہاں سے ساری مخلوقات میں پھیل جاتا ہے۔ اگر یوم ازل میں کن کے بعد سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی وساطت سے تمام روحوں کی تخلیق نہ ہوتی تو کسی کا وجود نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہستی تخلیق کی جس کے اندر یہ تقاضے پیدا کر دیئے کہ جسے بذاتِ خود وسائل استعمال کرنا ہیں اور ان وسائل کو تقسیم بھی کرنا ہے۔ وسائل تقسیم کرنے والے بندے کے متعلق فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (سورة الأنبياء – 107)
’’اور ہم نے آپؐ کو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے ربُّ العالمین کی صفات کا اعلان فرمایا ہے یعنی اللہ ایسا ربّ ہے یا رزق تقسیم کرنے والی ایسی ہستی ہے جو عالمین کو رزق پہنچاتی ہے۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس زمین کے علاوہ اور بھی سیّارے، ستارے اور کہکشانی نظام ہیں۔
اللہ پاک نے اپنے محبوبﷺ کے لئے رحمۃ للعالمین کا اعلان فرمایا ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح ربّ العالمین ہے، رزق فراہم کرنے والا ہے، پروٹیکشن دینے والا ہے، اسی طرح حضور خاتم النبیینﷺ سارے عالمین کے لئے اسی طرح رحمت ہیں جس طرح اس زمین کے لئے رحمت ہیں۔ حضور پاکﷺ ہر سیّارے ہر ستارے اور کہکشانی نظاموں میں اسی طرح پیغمبر اور آخری نبی ہیں جیسے زمین کے اوپر رہنے والی مخلوق انسانوں کے لئے پیغمبر ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے اس کی مثال یوں ہے۔
ایک ٹی وی اسٹیشن ہے اور کروڑوں ٹی وی سیٹ ہیں۔ ٹی وی اسٹیشن سے نشر ہونے والا، ہر بندہ بشر، کروڑوں ٹی وی سیٹ پر نہ صرف آتا ہے بلکہ پیغام بھی پہنچا رہا ہے۔ مثال کتنی ہی ناقص ہو لیکن اس مثال سے بہت حد تک مسئلہ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم (نعوذ باللہ) نبی کو ٹی وی اسٹیشن کہہ رہے ہیں اور سیّاروں کو ٹی وی سیٹ لکھ رہے ہیں۔ یہ صرف سمجھانے کے لئے ایک معمولی مثال ہے ورنہ حضور پاکﷺ کا اعلیٰ مرتبہ ساری کائنات سے افضل ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 220 تا 222
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔