تخلیقی اختیارات
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13281
سوال: قرآن کے مطابق انسان اشرف المخلوقات اور اللہ کا خلیفہ ہے۔ قرآن کی آیات اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ کسی تفسیر یا تشریح کی علیحدہ سے ضرورت نہیں پڑتی۔ یعنی انسان کی حیثیت علمُ الاسماء کے حُصول سے پہلے ایسی تھی جو فساد اور خون خرابہ برپا کرنے والا ہے اور علمُ الاسماء کے بعد وہ اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ فرشتے سجدہ کرتے ہیں۔ یعنی علمُ الاسماء کے حُصول سے انسان اللہ کا نائب بن گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہیں ہر شئے یا ہر حکم کو بدل سکتے ہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ کیا علمُ الاسماء کے حامل بندے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اختیارات یا تخلیقی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں؟
جواب: قلندر شعور کی تعلیمات کے مطابق انسان کی فضیلت اور کائنات میں دوسری مخلوقات کی نسبت اس کا ممتاز ہونا اور اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے انسان کا مُتّصِف ہونا اور انسان کے لئے ملائکہ کا مسجود ہونا اور انسان کے لئے کائنات کا مسخر ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انسان کو اللہ نے اپنی ان صفات کا علم عطا کر دیا ہے جو کائنات میں موجود دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کو جان کر، پڑھ کر کوئی بندہ کائنات میں اپنی ممتاز حیثیت سے واقف ہو جاتا ہے۔ یہ سارا کا سارا علم اس نظام سے متعلق ہے جس نظام کے تحت کائنات چل رہی ہے۔
ایک صاحب علم بندہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ سورج کیا ہے؟ چاند کیا ہے؟ ستارے کیا ہیں؟ فرشتوں کی مخلوق کیا ہے؟ اللہ نے جنّات کو کس شکل و صورت میں پیدا کیا ہے؟ اور جنّات کی عادات و اطوار کیا ہیں؟ ایک نظام شمسی میں کتنے سیّارے کام کرتے ہیں؟ اور ایک کہکشاں میں کتنے نظام ہائے شمسی متحرّک ہیں؟
وہ بندہ جو اللہ کی امانت کے علم کا امین ہے۔ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ کی تخلیق میں اللہ کی صفات اور اللہ کی مشیئت کا کس طرح عمل دخل ہے؟ اس کے علم میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ آدمی مرنے سے پہلے عالم ناسوت کی زندگی کن تخلیقی فارمولوں کے تحت گزارتا ہے؟ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ پیدائش سے پہلے آدمی کہاں تھا؟ پیدائش سے پہلے آدم زاد جہاں تھا اس سے پہلے کا عالم کیا ہے؟ اگر اس عالم کا نام برزخ ہے تو برزخ سے پہلے کون سا عالم ہے؟ برزخ سے پہلے کے عالم کا نام اگر عالمِ ارواح ہے تو عالمِ ارواح سے پہلے کون سا عالم ہے؟
عالمِ ارواح میں کائنات کے افراد نَوعی اعتبار سے کس قسم کے حواس اور کس قسم کا ادراک رکھتے ہیں؟ اور کُن سے پہلے افراد کائنات کی حیثیت کیا تھی؟ یہ بات بھی اس کے علم میں ہوتی ہے کہ پیدا ہونے کے بعد سے قیامت تک کی زندگی کن ضابطوں پر قائم ہے؟وہ یہ بھی جاتا ہے کہ ایک وجود کے اوپر روشنیوں کے کتنے غلاف چڑھے ہوتے ہیں؟ اللہ کے اس علم کی بدولت اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ روشنیوں کے وجود کے اوپر نور کے کتنے غلاف ہیں؟ نور اور تجلّی میں کیا فرق ہے؟ تجلّی اور تدلّیٰ کیا ہے؟
یہ سب علوم اسے اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب وہ اس علم سے واقف ہو جاتا ہے جس علم کو اللہ نے اپنی امانت قرار دیا ہے۔ ایسی امانت جو صرف انسان کو ہی حاصل ہے، یہ وہی امانت ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ کا نائب ہے اور خلیفہ ہے۔ ’’نیابت اور خلافت‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ جو جس کا نائب ہوتا ہے اس کے اختیارات اسے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ خالق ہے، اللہ کے اپنی ذاتی اختیارات تخلیقی ہیں، انسان جب زمین پر اللہ کا نائب بنا دیا گیا تو اسے بھی اللہ کے تخلیقی اختیارات منتقل ہو گئے۔ ان ہی تخلیقی اختیارات کو نافذ کرنے والے بندوں کے گروہ کو ’’اہل تکوین‘‘ یا خلیفہ فی الارض کہا گیا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت کرتے ہیں۔ یہی اختیارات ہمارے لئے جزا اور سزا کا تعیّن بھی کرتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 215 تا 216
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔